ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
''ایک بار صبح کا اُجالا پھیلنے سے پہلے آپ وزیر آباد کے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں تشریف رکھتے تھے،تلامذہ اور معتقدین کا ہجوم ارد گرد تھا، وزیر آباد ریلوے اسٹیشن کا ہندو اسٹیشن ماسٹر ہاتھ میں بڑا لیمپ لیے ہوئے ادھر سے گزرا ۔حضر ت مرحوم پر نظر پڑی تو رک گیا اور غور سے دیکھتارہا پھر بولا کہ ''جس مذہب کا یہ عالم ہے وہ مذہب جھوٹا نہیں ہو سکتا''۔ حضرت مرحوم ہی کے ہاتھ پر کفر سے توبہ کی اور ایمان کی دولت سے سرفراز ہوا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پنجاب میں ہی پیش آیا جب آپ کی منور صورت دیکھ کر ایک غیر مسلم کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی ۔ ١ مولانا انظر شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں : ''مولانامحمد علی مونگیری المغفور کی دعوت پر جب آپ مونگیر قادیانیت کی تردید کے لیے تشریف لے گئے اور چند روز اجتماع میں آپ کے مسلسل بیان ہوئے تو علاقہ کا ایک بڑا ہندو سادھو پابندی سے ان اجتماعات میں شرکت کرتا، آخری دن اُس کی زبان پر یہ کلمات بے اختیار تھے کہ ''یہ شخص اپنے چہرہ سے اسلام کی دعوت دیتا ہے''۔ ٢ ایک ہندو آفیسر کی آہ وبکاء : پرنسپل احسان قریشی رقمطراز ہیں : ''١٧ اگست ١٩٦٢ء کو ہم کلیر شریف ضلع سہارنپور میں تھے۔ زائرین پاکستان کی ایک پارٹی وہاں عرس حضرت مخدوم سیّد علی احمد صابر کی تقریبات میں حصہ لینے کے لیے پہنچی ہوئی تھی ۔ اس پارٹی کے لیڈر صاحبزادہ قاسم علی سجادہ نشین درگاہ داتا گنج بخش لاہور تھے اور ڈپٹی لیڈر راقم الحروف تھا۔ سہارنپور کے ایک ہندو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (سی آئی ڈی) واینٹلی جینس کی ڈیوٹی اس بات پرلگی ہوئی تھی کہ وہ سفید کپڑوں میں ملبوس کانسٹیبلوں کی امداد سے زائرین ِپاکستان کی حرکات وسکنات پر نگاہ رکھیں اور خاص کر لیڈر اور ڈپٹی لیڈرصاحبان کی نشست وبر خاست کا جائزہ لے کہ وہ کہاں کہاں جاتے ہیں ۔اس وجہ سے وہ سی آئی ڈی آفیسرہمارے ساتھ گھل مل گیا تھا۔ میں چند مصلحتوں کی بناء پر اس ہندو آفیسر کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اس ١ کمالات انوری بحوالہ نقشِ دوام ص٧٥ ٢ نقشِ دوام ص ٧٥