ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
دو،دیر لگانا اچھا نہیں ہے۔ (٢) ہاں اگر بقدرِنصاب مال کے مالک ہونے کے بعد اگر سال گزرنے سے پہلے زکٰوة ادا کردو تو یہ بھی جائز ہے۔ نیت : جب زکٰوة کی رقم کسی کو دویا کم از کم زکٰوة کی رقم علیحدہ کرکے رکھو ،اُس وقت یہ نیت کرنا ضروری ہے کہ یہ مال میں زکٰوة میں دیتا ہوں یا زکٰوة کے لیے علیحدہ کرتا ہوں۔ اگر زکٰوة کا خیال نہیں تھا اور کسی کو روپیہ دے دیا ، دینے کے بعد اُس کو زکٰوة کے حساب میں لگالیا تو زکٰوة ادا نہ ہو گی ۔ اسی طرح کسی کو قرض دیا تھا اب اس کو زکٰوة کے حساب میں لگا کر معاف کرنا چاہتے ہوتب بھی زکٰوة ادا نہ ہوگی اگر اداء قرض میں اس کی امداد کرنی ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ اتنی رقم اس کو زکٰوة کی نیت سے دے دو پھر اُس سے اپنے قرض میں یہ رقم وصول کرلو ۔ کیا بتانا ضروری ہے ؟ : جس کو زکٰوة دی جائے اس کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکٰوة کی رقم ہے بلکہ اگر زکٰوة کی نیت کرکے کسی غریب کو انعام کے طورپر یا کسی مفلس کے بچوں کو عید ی کے نام سے رقم دے دی جائے تب بھی زکٰوة ادا ہو جائے گی ۔ پوری یا تھوڑی زکٰوة کب ساقط ہو جاتی ہے : (١) سال گزرنے کے بعد ابھی زکٰوة نہیں دی تھی کہ سارا مال ضائع ہو گیا یا سارا مال راہِ خدا میں صرف کردیا تو اُس کی زکٰوة بھی ساقط ہو گئی ۔ (٢) لیکن اگر سارا مال ضائع نہیں ہوا ،تھوڑا مال ضائع ہوا یا تھوڑا مال خیرات کیا باقی ، باقی ہے تو جس قدر مال ضائع ہوا یا خیرات کیا اس کی زکٰوة ساقط ہو گئی ۔باقی مال کی زکٰوة ادا کرے۔ مصارفِ زکٰوة تشریح : مصارف جمع مصرف کی ہے ۔ جس شخص کو زکٰوة دینے کی اجازت ہے اُسے مصرف ِزکٰوة کہتے ہیں ۔مصارف زکٰوة سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو زکٰوة دینا جائز ہے۔ مصارفِ زکٰوة کون کون ہیں؟ : (١) فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا سامال و اسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں ۔ (٢) مسکین یعنی جس شخص کے پاس کچھ بھی نہیں۔