ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
سے دیتے ہیں ایسے لوگ اللہ نے مخلص دے رکھے ہیں ۔ذلت کا نوالہ کسی طالب علم کے لیے قبول نہیں ہے ۔ حکومتوں کی امداد قبول نہیں کی : ہمیں حکومتوں نے مدد کی (پیشکشیں کیں) ۔جب حضرت کی وفات ہوئی تو( اس وقت کے وزیرِ اعظم) جونیجو تعزیت کے لیے آئے ضیاء الحق کے زمانے میں ۔ انھوںنے پانچ لاکھ روپے دیے کہ یہ پیش کرتاہوں ،اللہ کے فضل سے ہم نے نہیںلیے۔ ہم نے کہا کہ حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی نصیحت میں سے ایک نصیحت ہے کہ سرکاری امدادقبول نہ کی جائے لہٰذا ہمیں سرکاری امداد نہیںچاہیے۔ ہم نے اُنھیں کہا کہ اپنی جیب سے آپ ایک روپیہ بھی دیں تو ہم اسے سرآنکھوں پر رکھیں گے لیکن سرکاری امداد قبول نہیں کرتے کیونکہ حضرت کی یہ نصیحت ہے اور ان کی نصیحتوں کی برکت ہے کہ دارالعلوم کہاں پہنچ گیا، آج جو بھی عمل کرے گا انشاء اللہ وہ اسی طرح ترقی کرے گا ۔تو ان صاحب کو میں نے فون کرنا چھوڑ دیا اُ ن کے پاس جانا بھی چھوڑدیا ۔میرے ایک دوست مخلص تھے انھوں نے کہا نہیں چلیں کیا حرج ہے بہت بڑے جیولر ہیں لاکھوں دیتے ہیں ،یہ ہے وہ ہے ، گلبرگ میں اُن کاکاروبارہے کروڑوں کا ، میں جانتا ہوں پہلے غریب تھے انہیں اللہ نے ترقی دی ، میںنے کہا نہیںمیںتو خوشامد نہیں کرسکتا کسی کی تو وہ مجھے کہنے لگے کہ تھوڑی سی خوشامد میں کیا حرج ہے دین کے لیے، میںنے کہا یہی خوشامد میں اللہ میاں کی نہ کروں، اس کی کروں اور پھر بھی نہ مانے اور اللہ تو مانے گا وعدہ ہے تو ہم تو خوشامد اللہ کی کرتے ہیں یہ بھی اللہ کا فضل ہے کوئی اپنا کمال نہیں ہے یہ اسی کی توفیق سے کرتے ہیں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ بہرحال یہ چند باتیں تھیں حضرت کا مقصد اور مشن بیان کرنا تھا جوبہت عظیم تھا ہم اس کے لائق نہیں ہیں لیکن اللہ اپنے فضل سے اس لائق بناد ے تواس کے لیے مشکل نہیں ہے اس لیے اس کی رحمت سے اُمّید وار ہیں ۔ تعلیمی حالات : اب گزشتہ سال سے اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس میں مولانا حسن صاحب کے چھوٹے بھائی مولانا خلیل صاحب پڑھانے لگے۔اور مولانا خالد محمودصاحب پڑھا رہے ہیں جو یہاں کے ناظمِ تعلیمات ہیں فنون کی کتابیںان سے پڑھنے والے مختلف فضلا ء شہر سے آتے ہیں ہفتہ میں ایک سبق وہ فنون کی کتابوں کا پڑھاتے ہیں ۔اسی طرح میرے پاس بھی ایک سبق تھا جس میں حضرت نانوتوی کی کتابیں میں پڑھاتا رہا ذی استعداد طلباء اور اساتذہ پڑھتے رہے ۔حضرت نانوتوی کا علمِ کلام آج کی جدید ترین سائنس اور فلسفہ کا منہ توڑ جواب ہے اور اس وقت کی ضرورت ہے کہ طالب علموں کو حضرت نانوتوی کے علمِ کلام سے آگاہ ہونا چاہیے ،تھوڑا بہت جانے تو وہ جدید دور کے تمام اعتراضات حل کر سکتا ہے۔ انشاء اللہ آئندہ سال سے ہماری یہ نیت (اور ارادہ ہے)کہ حضرت نانوتوی کے علمِ کلام کا سلسلہ ان لوگوں کے