ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
کو(اور اس میں انواع واقسام کے عذاب کے جو سامان پیدا کیے ہیں ان کو)دیکھو،چنانچہ وہ گئے اور جاکر اس کو دیکھا اور آکر عرض کیا خداوندا!آپ کی عزت کی قسم (آپ نے دوزخ کو تو ایسا بنایا ہے کہ میرا خیال ہے کہ )جو کوئی بھی اس کا حال سن لے گا وہ کبھی بھی اس میں نہ جائے گا(یعنی ایسے کاموں کے پاس نہیں جائے گا جو آدمی کو دوزخ میں پہنچانے والے ہیں)اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو شہوتوں اور نفسانی لذتوںسے گھیر دیا(مطلب یہ ہے کہ نفسانی خواہشات والے وہ اعمال جن میںانسان کی طبیعت اور نفس کے لیے بڑی کشش ہے، جہنم کے گرد اُن کو پھیلادیا ،اور اس طرح جہنم کی طرف جانے کے لیے ایک بڑی کشش پیدا ہوگئی)اورپھر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل سے فرمایا اب پھر جا کر اس دوزخ کودیکھو ۔رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں کہ جبرئیل پھر گئے اور جاکر اس کو (اور اس کے گردشہوات ولذات کے پھیلائو کو)دیکھا اورآکر عرض کیاخداوندا!آپ کی عزت وجلال کی قسم اب تومجھے ڈرہے کہ سب انسان اسی میں نہ پہنچ جائیں ۔(مطلب یہ ہے کہ جن شہوتوں اور لذتوں سے آپ نے جہنم کو گھیر دیاہے ان میں نفس رکھنے والے انسانوں کے لیے اتنی زبردست کشش ہے کہ ان سے رکنا بہت مشکل ہے اور اس لیے خطرہ ہے کہ ساری اولادِ آدم نفسانی لذات وشہوات کی کشش سے مغلوب ہوکردوزخ ہی میں نہ پہنچ جائے)۔ دنیا کی راحت وتکلیف کا آخرت کی راحت و تکلیف سے تقابل : عن انس قال قال رسول اللّٰہ ۖ یوتٰی بانعم اھل الدنیا من اھل النار یوم القیمٰة فیصبع فی النار صبغة ثم یقال یا ابن آدم ھل رأیت خیرا قط ھل مربک نعیم قط؟ فیقول لا واللّٰہ یا رب! ویوتٰی بأشد الناس بوسا فی الدنیا من اھل الجنة فیصبع صبغة فی الجنة فیقال لہ یا ابن آدم ھل رأ یت بوسا قط وھل مربک شدة قط؟فیقول لا واللّٰہ یا رب مامربی بوس قط ولا رأ یت شدة قط ۔(مسلم) حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ۖ نے فرمایا قیامت کے دن اہلِ دوزخ میں سے (یعنی اُن لوگوں میں سے جو اپنے کفر وشرک کی وجہ سے یا فسق وفجور کی وجہ سے دوزخ میں جانے والے ہوں گے)ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جس نے اپنی دنیا کی زندگی نہایت عیش وآرام کے ساتھ گزاری ہوگی اوراس کو دوزخ کی آگ میں ایک غوطہ دلایا جائے گا ۔(یعنی جس