ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
سے زیادہ شریف النفس ،نیک، سچا اوربلند کردار انسان میں نے ہندودوستوں میں نہیں دیکھا ۔اس کی گفتگو ملنساری ،طرزِتکلم اور اچھا سلوک اس بات کی غمازی کرتے تھے کہ وہ خاندانی انسان ہے اور بلند ا خلاق ہے۔ ١٧اگست ١٩٦٢ء کی صبح صبح وہ ہمارے کیمپ میں آیااور مجھے بلایا میں باہر نکلا حیران ہوا کہ اس کے چہرے پر ہوائیاں کیوں چھوٹ رہی ہیں ۔اس کی دونوں آنکھوں سے ایک ایک آنسو ٹپکتا بھی دکھائی دیا۔ جو اُس نے فوراً رومال سے صاف کرلیا ۔میں نے اچانک ا س صورتِ حال کی وجہ دریافت کی تو اُس نے کہا ''میں آج بہت غمگین ہوں ۔میرا دل بیٹھا جا رہا ہے ۔پرماتما مجھے شانتی بخشے ۔میں نے سمجھا کہ گھر میں کوئی بیمار ہو گا تب ہی انہیں اطمینانِ قلب نصیب نہیں ۔ میرے استفسارپر اس نے بتایا کہ ایک تو اسے صبح سے ہی تھوڑی سی( بہت معمولی سی )اداسی تھی کہ تم لوگ آج رات جارہے ہو اور میری اور میرے رفقاء کی سرکاری نگہداشت بھی تم پر آج رات سے ختم ہوجائے گی ۔'' لیکن میری اس معمولی سی اداسی کو ایک اور واقعہ نے پہاڑ جیسا غم بناکر رکھ دیا ہے ۔ایک بہت بڑا حادثہ ہوا ہے۔قریشی صاحب !بہت بڑا ایکسیڈنٹ بہت بڑا نقصان ۔ میرے استفسار پر اس نے ڈبڈباتی ہوئی آواز میں کہا ''قریشی صاحب میں نے آج صبح ریڈیو پر بڑی منحوس خبر سنی ہے ۔وہ خبر یہ ہے کہ مولانا عبدالقادر رائے پوری لاہور میں کل انتقال کرگئے''۔ اس کے یہ خبر بتلانے پر میرا دل بھی بیٹھ گیا اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔تھوڑی دیر کے لیے میں بھی سرپکڑ کر بیٹھ گیا لیکن میرے قلب پر یک دم حیرانگی اور تحیر کے جذبات غالب آگئے کہ اس ہندو آفیسر کا مولانا رائے پوری کے ساتھ کیا واسطہ اور کیا تعلق ہے؟ اس نے کہا''قریشی صاحب ! کئی سالوں سے میری ڈیوٹی اس بات پر رہی ہے کہ خانقاہ شاہ عبدالرحیم موضع رائے پور ضلع سہارنپور میں مولانا عبدالقادر رائیپوری پر نگرانی رکھوں ۔ان کی ڈاک سنسر ہو کیونکہ (اگرچہ وہ ١٩٤٧ء سے بھارتی باشندے چلے آرہے تھے )وہ ہر دوسال بعدپاکستان ضرور جاتے تھے اور پاکستان سے بھی ان کے سینکڑوں مرید ان سے ملنے بھارت آیا کرتے تھے۔اصل میں مولانا رائے پوری موضع ڈھڈیاں ضلع سرگودھا (پاکستان) کے باشندے تھے لیکن اپنے مرحوم پیرشاہ عبدالرحیم رائے پوری سے اتناتعلق بڑھا کہ وہیں کے ہوگئے''۔