ماہنامہ انوار مدینہ لاہورستمبر 2002 |
اكستان |
|
معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے یہاں قدر دلوں اور عملوں کی ہے حسن وجما ل اور مال ودولت کی نہیں۔تاریخ بتلا تی ہے کہ بہت سے حسن و جمال والے اور بہت سے مال و دولت والے جو خدا کے نافرمان تھے وہ راندۂ درگاہ ہوگئے او ر بہت سے بدصورت و بد شکل جن کے پلے کچھ بھی نہیں تھا وہ مقبول بارگاہ الہی ہوگئے ۔ذیل میں ایک صحابی کا واقعہ درج کیا جارہا ہے جس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے ۔یہ واقعہ علامہ ابن الاثیر نے اپنی کتاب اُسُدُالْغابَةْ میں ذکر کیا ہے ملاحظہ فرمائیے : ''حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضرت سعد اسود نے حضور ۖ کی خدمت میں آکر عرض کیا صفحہ نمبر 51 کی عبارت کہ یا رسول اللہ کیا میرا کالاپن اوربد صورتی مجھے جنت میں داخل ہونے سے روک سکتی ہے ؟ حضور ۖنے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اللہ اور رسول پر ایمان لا چکے ہو اور تقوٰی وپرہیزگاری کا راستہ اختیا ر کر چکے ہو تو ایسا ہرگز نہیںہو گا (بلکہ اللہ کے یہاں تمہارا بہت بلند مقام ہوگا)۔ حضرت سعدا سود نے کلمہ پڑھ کر اپنا ایمان ثابت کیا او رحضور ۖ کے سامنے اپنی پریشانی کا اظہار کیا کہ یا رسول اللہ جو لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور جو آپ کی مجلس میں نہیں آتے دونوں قسم کے لوگوں کے یہاں میں نے اپنی شادی کا پیغام دیا ہے لیکن میری بد صورتی کی وجہ سے کوئی بھی اپنی لڑکی دینے کے لیے تیار نہیں ہے ۔حضور ۖ نے ان کے لیے مدینہ منورہ کی سب سے خوبصورت اور سب سے باعزت گھرانے کی پڑھی لکھی سمجھ دار لڑکی منتخب فرمائی اور فرمایا کہ تم عمر و بن وہب ثقفی کے پاس جائو ان کی لڑکی جو سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ سمجھ دار ہے اس کے ساتھ میں نے تمہارا نکاح کردیا اور تم جا کر عمر و بن وہب ثقفی کو میرا یہ پیغام سُنا دینا کہ ان لڑکی کا ساتھ میں نے تمہارا نکاح کردیا ہے حضرت سعد نے جا کر لڑکی کے ماں باپ کو اطلاع دی تو ماں باپ نے اُن کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور واپس کر دیا۔ جب لڑکی نے یہ منظر دیکھاتو پردہ سے نکل کر بولی ،بندۂ خدا واپس آجائو اگر اللہ کے نبی نے میرا نکاح تم سے کر دیا ہے تو میں اپنے لیے اس کو پسند کرتی ہوں جس کو اللہ اور اللہ کے رسول نے پسند کیا ہے۔ وہ لڑکی ماں باپ سے کہنے لگی کہ اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے خلاف وحی نازل نہ ہو جائے ،اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے بچئے۔ جب لڑکی کے باپ حضو ر ۖ کی مجلس میں گئے توحضور ۖ نے پوچھا کہ تم نے میرا بھیجا ہوا آدمی واپس کردیا؟انہوں نے شرمندگی کا اظہار کیا اور توبہ کی اور عرض کیا کہ ہم کو شبہہ ہوا کہ انہوں نے کہیں جھوٹ نہ کہا ہو ہم تو آپ کے تابع ہیں ہم ان کو اپنی لڑکی دیتے ہیں چنانچہ ماں باپ نے اپنی چہیتی بیٹی کو حضرت سعد اسود کے حوالے کر دیا ۔اس کے بعد حضرت سعداسود اپنی بیوی کے لیے بازار سے کچھ سامان خرید نے کے لیے تشریف لے گئے اسی اثناء میں جنگ کا اعلان ہوا انہوں نے بیوی کے لیے سامان خریدنے کے بجائے اسی پیسہ سے تلوار