ماہنامہ انوار مدینہ لاہورستمبر 2002 |
اكستان |
|
بن مسعود فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ۖ نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے پھرآپ ۖ نے اس خط کے دائیں بائیں کئی لکیریں کھینچ کر فرمایا یہ کئی راستے ہیں ان میں سے ہرراستے پر ایک شیطان ہے جو اسی کی طرف دعوت دیتا ہے پھر آپ ۖ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ ) اوربے شک یہ میرا راستہ ہے اس پر چلو اور دوسرے راستہ پر مت چلو (اگر ان راستوں پر چلو گے ) تو راہِ خدا سے کٹ جائو گے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سبیل اللہ پر چلنے والے قافلۂ حق سے بھی کٹ جائو گے اور شاہراہِ حق سے بھی اور صراطِ مستقیم کے خط سے ہٹا اور کٹا ہوا راستہ سبیل اللہ نہیں بلکہ سبیل الشیطان ہے اور اس سبیل اللہ کو چھوڑ کر سبیل الشیطان پر چلنا فرقہ واریت ہے اور شیطنت ہے۔ اس فرقہ واریت کا یہ علاج نہیں کہ ان کو آ زادچھوڑ دیا جائے بلکہ حکومت ان کو قا نون کے شکنجہ میںکس کر ان کے بل کس نکال کر سبیل الرحمن کی طرف لائے بصورت دیگر علماء حقہ کا فرض ہے کہ وہ فرقہ واریت کی حقیقت کھول کر اس کے پھیلائو کو روکیں نیز و ہ سبیل الرحمن اور سبیل الشیطان یعنی راہ حق اور راہ باطل ،صراط مستقیم اور فرقہ واریت کے درمیان فرق واضح کرکے ان کی پہچان کراکر عوام الناس کو فرقہ واریت سے بچائیں اور صراط مستقیم کی شاہراہ پرچلائیں۔ عجیب بات ہے صفحہ نمبر 25 کی عبارت کہ حکومت اپنے باغی کو تو معاف نہیں کرتی اس کے لیے دوہی راستے ہیں وفا دار بن جائے یا تختہ دار پر لٹک جائے لیکن خداکا باغی جو اللہ اور سبیل اللہ کو چھوڑ کر اس کے مقابلہ میں سبیل الشیطان کو اختیار کرلے اس کے لیے معافی کیوں ؟ وہ آزادکیوں ؟ او ر اس کے لیے اعزاز و انعام کیوں ؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ جتنا کوئی بڑا باغی ہے وہ اتنا بڑا مجرم ہے اس کی سزا بھی اتنی سخت ہو لیکن ہو یہ رہا ہے کہ اپنے باغی کے لیے تو تختہ ہے اور اللہ و سبیل اللہ کے باغی کے لیے تخت ہے۔ بس علماء کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے دشمن کو تو معاف کر دیتے ہیں مگر فرقہ واریت پیدا کرنے اور فرقہ واریت پھیلانے والے اللہ کے باغی و غدار کے لیے معافی کے روا دار نہیں۔وہ بھی اس لیے کہ علماء اللہ کے سپاہی ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ حدود ِدین کی حفاظت کریں اور حفاظت کرکے قیامت کے روز اللہ کے ہاں سُرخرو ہو جائیں اور آگ کی لگام پہننے سے بچ جائیں ۔راقم الحروف کے ان سارے معروضات کا خلاصہ حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر ہے زاجتہاد عالماں کوتاہ نظر اقتداء رفتگاں محفوظ تر یعنی کوتاہ نظر علماء کے نئے اجتہاد سے گذرے ہوئے ماہرین ِشریعت کی تقلید و اقتدا میں دین و ایمان کی زیادہ حفاظت ہے۔ (جاری ہے) ٭