ماہنامہ انوار مدینہ لاہورستمبر 2002 |
اكستان |
اے برادرانِ اسلام ! ایسے مجاہد ،جرأت مند ،حق گو علماء بسا غنیمت ہیں یہ علما ء اللہ کی رحمت ہیں بلکہ بقائے دنیا اور نزول رحمة کا ذریعہ ہیں ۔یہی جماعت وہ طائفہ منصورہ ہے جس کے بارے میں محسن ِاعظم سرور کائنات ۖ کا ارشادِ گرامی ہے ولن تزال ہذہ الامة قائمة علی امراللّٰہ لایضرہم من خالفھم حتی یأ تی امراللّٰہ (بخاری ج١ ص١٦) اوریہ اہل حق کی جماعت قیامت تک قائم رہے گی ان کو کوئی مخالف نقصان نہ پہنچا سکے گا یعنی نہ ان کی استقامت میں فرق صفحہ نمبر 18 کی عبارت آئے گااور نہ وہ اپنے مشن سے پیچھے ہٹیں گے اور یہی جماعت خیر امت کا مصداق ہے جس کے متعلق ارشاد ِربانی ہے کنتم خیرامة اخرجت للناس تأ مرون بالمعروف وتنہون عن المنکر(تم بہترین امت ہو کہ تمہیں لوگوں کی نفع رسانی کے لیے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکرظاہر کیاگیا ہے اور یہ وہی مؤمن ہیں جن کے متعلق قرآن نے کہا والمؤمنون والمؤمنات بعضہم اولیاء بعض یأمرون بالمعروف وینہون عن المنکر (مؤمنین ایک دوسرے کے دو ست ہیں امر بالمعروف اور عن المنکر کرتے ہیں )انہی مؤمنین کوخوش خبری دی ا ولئک سیر حہم اللّٰہ الخ ( اللہ ان پر یقینًارحمت فرمائے گا اور اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو پررونق باغات اور عمدہ رہائش گاہیں عطا کرے گا ان سے بھی بڑھ کر نعمت اللہ کی رضا ہے ) یہ مجاہدین علماء تمام مسلمانوں کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ وہ پوری اُمت مسلمہ کی طرف سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اللہ تعالی کا حکم ہے ولتکن منکم امة ید عون الی الخیر و یأمرون بالمعروف و ینہون عن المنکر الخ(تم میں سے لازماً ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو امربالمعروف او رنہی المنکر کافریضہ انجام دے اور یہی لوگ کامیاب ہیں )دنیا ان علماء کو فرقہ پرست اور شرپسند کہے یا انتہا پسند اور بنیاد پرست قراردے ،ان کو تخریب کاری اور دہشت گردی کا طعنہ دے یافرقہ واریت اور امن شکنی کا الزام دے قرآن ان خوش بخت ،خوش نصیب ،سعادت مند علماء کو خیر امة، اولو بقیہ، المفلحون ،المؤمنون ، الصالحون کے اعلی القاب سے نواز کر و رضوان من اللّٰہ اکبر کا پروانہ عطا کرکے بشارت دیتا ہے ذالک الفوز العظیم ۔ اللہ تعالی نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرسے غفلت و ترک کو موجب ہلاکت فرمایا ہے۔ سورة ہود میں ہے فلولاکان من القرون تا مجرمین یعنی ان ہلاک شدہ بستیوں میں اہل علم فساد فی الارض سے کیوں نہیں روکتے تھے(جس کی وجہ سے ہم نے سب کو ہلاک کر دیا )البتہ جو چند افراد نہی عن المنکر کرتے تھے ہم نے صرف ان کو نجات دی اور ان ہلاک شدہ لوگوں کی ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ انہوںنے آرام پرستی او ر عیش پسندی کے پیچھے پڑکر نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑدیاتھا اور سورةالاعراف میںہے واسئلھم عن القریة التی کانت حاضرة البحرتاخاسئین حضرت دائودعلیہ السلام کی قوم کا واقعہ ہے ہم اُن کی زبان ِحال کو زبانِ قال میں ڈھال کر حقیقتِ حال سے آگاہی کی کوشش کریں گے ان کو حکم الہی تھا کہ وہ ہفتے والے دن مچھلی کا شکار نہ کیا کریں لیکن اتفاق کی بات یہ کہ ہفتے کے دن مچھلیاں زیادہ ظاہر ہوتیں۔ان حالات میں جدید محققین اور جدیدشارحین کا ایک گروہ پیدا ہو گیا جو یہ سوچنے لگے کہ اس طرح تو قوم کا بہت اقتصادی ومعاشی نقصان ہے لہٰذا اللہ تعالی کے اس حکم کی ایسی تشریح کی جائے کہ شریعت بھی رہ جائے اور مچھلی بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ وہ کہنے لگے اب تک جو اس حکم کی یہ تشریح ہوتی رہی ہے کہ نہ مچھلی کو پکڑناہے نہ ان کو کسی گڑھے میں محبوس و محفوظ کرنا ہے یہ غلط ہے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہفتے والے دن مچھلی کومت پکڑو صفحہ نمبر 19 کی عبارت اور اگر ہفتے والے دن مچھلیوں کو گڑھوں میں اس طرح محبوس و محفوظ کردیں کہ واپس دریا میں نہ جا سکیں اور اتوار کے دن ان کو پکڑ لیں تو یہ ا س حکم کی خلاف نہیں ۔ان جدید محققین نے اس نئی تحقیق کی بنیاد پر نیا مذہب جاری کیا اور ایک نیا فرقہ بنا ڈالا اورکچھ لوگوں کو چکنی چپڑی باتیں کرکے اپنے ساتھ ملالیا یوں فرقہ واریت شروع ہو گئی۔ سو قوم تین گروہوں میں بٹ گئی، ایک گروہ فرقہ واریت کا علم بردار جدید فرقہ تھا یعنی ہفتے والے دن مچھلیوں کوچھوٹے چھوٹے گڑھوں میں محبوس کرنے والا طبقہ وہ اپنے اس عمل کو حکمِ شرعی کے خلاف نہیں سمجھتا تھا،دوسرا گروہ اہل حق کا تھا جن کادعوی تھا کہ حکم شرعی کی وہ تحقیق و تشریح جو پہلے سے چلی آ رہی ہے وہی حق وہی سچ اور وہی صحیح ہے۔ قو می وحدت اور قومی اتحاد و اتفاق کا تقاضا بھی یہی ہے اپنی نئی تحقیق اور نئی تشریح کرکے اس کی بنیاد پر نیا مذہب اور نیا فرقہ بنانا فرقہ واریت ہے جو بہت بڑا فتنہ اور فساد ہے لہٰذا ا س سے باز آجانا چاہئے۔وہ ایک طرف عوام الناس کو سمجھاتے اور ان کو فرقہ واریت سے بچانے کے لیے اسی متواتر و متوارث تحقیق کے مطابق حکم الہی پر عمل کرنے کی دعوت دیتے جو فرقہ