حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریش کی ایک عالی نسب خاتون نے چوری کا ارتکاب کیا، شرعی حکم کے بموجب اس کا ہاتھ کٹنا تھا، حضرت اسامہ بن زید کے توسط سے آپؐ کے پاس معافی کی سفارش پہونچی تو آپ نے فرمایا:
اَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللّٰہِ، اِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِیْنَ قَبْلَکُمْ أَنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا سَرَقَ فِیْہِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ، وَإِذَا سَرَقَ فِیْہِمُ الضَّعِیفُ، أَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ، وَأَیْمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَہَا۔( مسلم)
اے اسامہ! تم اللہ کی حدود میں سفارش کررہے ہو، تم سے پہلی امتیں اسی لئے برباد ہوئیں کہ اگر کوئی معزز وعالی نسب انسان چوری کرتا تو وہ اسے کچھ نہ کہتے تھے اور اگر ادنیٰ فرد چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹتے تھے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد سے بھی یہ جرم سرزد ہوا ہوتا تو میں اس کا ہاتھ کاٹتا، چنانچہ پھر اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا۔
شاہِ غسّان جبلہ بن ایہم خلافت فاروقی کے زمانہ میں مشرف باسلام ہوا، لیکن چونکہ جاہلی نخوت اور شاہانہ تکبر باقی تھا، اسی کا ایک مظہر اُس وقت سامنے آیا جب طواف کعبہ کے دوران ایک بدّو کا پاؤں ہجوم کی وجہ سے جبلہ بن ایہم کے زمین پر گھسٹتے تہ بند پر جا پڑا، جبلہ آگ بگولہ ہوگیا اور غصہ میں اس بدو کو گالیاں دیں اور اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ اس کی ناک کا بانسہ ٹیڑھا ہوگیا اور خون بہہ پڑا، معاملہ حضرت عمرؓ کے پاس آیا، آپ نے فریقین کا بیان سننے کے بعد فرمایا ’’ جبلہ: زیادتی تم نے کی ہے اب یا تو اس بدو کو منالو یا پھر قصاص دو‘‘ جبلہ حیران وپریشان دیکھتا رہا پھر بولا ’’ یہ ایک معمولی درجہ کا آدمی اور میں بادشاہ کیا آپ اس کے بدلہ میں مجھ سے قصاص لیں گے؟ حضرت عمرؓنے فرمایا: ’’ اسلام نے بالا وپست سب کو برابر کردیا