خاندان ونسب کی بنیاد پرکسی بھی طرح کی اونچ نیچ کا تصور اسلام نے ختم کردیا ہے، قرآن میں قیامت کا نقشہ کھینچا گیاہے ۔
فَإِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلا أَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلایَتَسَائَ لُوْنَ۔ (المؤمنون:۱۰۱)
پھر جب صور میں پھونک ماردی جائے گی تو ان کے درمیان کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنیاد پر فرمایا ’’ اے صفیہ بنت عبد المطلب، اے فاطمہ بنت محمد، اے بنو عبد المطلب، اے قریش، اے بنو عبد مناف!
سَلِیْنِیْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِیْ لاَ أُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا۔ (بخاری ومسلم وترمذی)
سنو میرے مال میں سے جو چاہو لے لو، اللہ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہ کرسکوں گا۔
یعنی محض عالی نسبی کام نہ آئے گی۔ایک حدیث میں فرمایا گیا:
مَنْ بَطَّأَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ۔ ( مسلم)
جس کو اس کا عمل پیچھے کردے اُسے اس کا نسب آگے نہیں کرسکتا۔
حضرت عمر بن الخطابؓ نے فرمایا ’’ بخدا اگر عجمی عمل صالح کریں اور ہم اہل عرب عمل صالح نہ کریں تو وہ عجمی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے دن ہمارے مقابلہ میں کہیں زیادہ قریب ہوں گے، عمل کی کوتاہی کو عالی نسبی ختم نہیں کرسکتی۔
حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو لکھا کہ ’’ اللہ کے ہاں نسب کا کوئی اعتبار نہیں ، اطاعت کا اعتبار ہے‘‘ ۔