مَثَلُ الْمُؤمِنِیْنَ فِیْ تَوادِّہِمْ وَتَراحُمِہِمْ وَ تَعَاطُفِہِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ، إِذَا اَشْتَکَیٰ مِنْہُ عُضْوُ تَدَاعِیْ لَہُ سَائِرَ الْجَسَدِ بِالسَّہْرِ وَالْحُمَّیٰ۔ (بخاری ومسلم)
باہمی محبت وتعلق میں اہل اسلام جسم واحد کی مانند ہیں ، کہ ایک عضو کو تکلیف پہونچتی ہے تو پورا بدن بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
اختلاف وانتشار کو دین کومونڈنے والا عمل قرار دیاگیا ہے، اور اختلاف کو تباہی کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
(۶) جہاد
حق کو سربلند کرنے، سچائی کو غالب کرنے اور ظلم کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرنا جہاد ہے، ناقدین ِ اسلام جہاد کو امن مخالف اقدام کا نام دیتے ہیں مگر فی الواقع یہ اصلاحِ کائنات اورقیام امن کے لئے ہوتا ہے، جہاد انسانیت کے لئے خیر وبرکت کا ضامن ہوتا ہے، وہ ظلم کا قلع قمع کرتا ہے، اس کا مقصد حصولِ زر، حصولِ جاہ، حصولِ مال اور تسکین ِ نفس نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد امن کو فروغ دینا اورفساد کے سارے شگاف پاٹ دینا ہوتا ہے۔
دشمن حملہ آور ہو یا حملہ کے لئے تیار ہو تو ملک وقوم کی حفاظت کے لئے جہاد کا حکم ہے، کمزوروں اور مظلوموں کی مدد کے لئے، ظلم کی بیخ کنی کے لئے اور سرکشی وفساد کے خاتمہ کے لئے جہاد کی تلقین کی گئی ہے، مختلف جہادی معرکوں کے بعد حنین ومکہ کی فتح ہوئی اور اس کے نتیجہ میں پورے جزیرۃ العرب میں جو امن وامان کا نظام قائم ہوا اورجان ومال اور عزت وآبرو کا جو تحفظ سامنے آیا وہ اسی جہاد کی برکت ورحمت کا ظہور تھا، روایات میں آتا ہے کہ امن وامان کا عالم یہ تھا کہ ایک پردہ نشین تنہا خاتون مقام حیرہ سے مکہ آکر طواف کعبہ کرتی اورپھر وطن لوٹ جاتی ہے اور کسی کو اس کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔