شریعت اسلامی کے سارے اصول اسی پر مبنی ہیں ، ایک مفسّرنے خوب لکھا ہے:
حدیث نبوی میں جو آیا ہے: {دِیْنُ اللّٰہِ یُسْرٌ} وہ اسی آیتِ قرآنی کی شرح یا تتمہ ہے، اور واقعی اگر غور کرکے دیکھا جائے تو شریعت کا ایک حکم بھی ایسا نہ ملے گا جس میں عامل کے حالات، عمر، صحت، جثّہ، موسم اور دوسری مشکلات کا لحاظ نہ کرلیا گیا ہو، اور جو احکام بظاہر سخت معلوم ہوتے ہیں ان کی تہہ میں بھی ہمیشہ یہی حقیقت پائی جائے گی کہ فرد یا امّت کی راہ میں کچھ آسانیاں ہی پیدا ہوں ۔ (تفسیر ماجدی: ج۱؍ ص:۳۴۱)
اسی لئے اسلام نے ایسے احکام نہیں دیئے جو فطرتِ بشری سے ہم آہنگ یا نفسیات وحالات کی رعایت کرنے والے نہ ہوں ، بلکہ اسلام سہولت واعتدال کے پہلو کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔
انسان میں موجود کمزوری اور مادیت کے پہلو ہی کے پیش نظر توبہ واستغفار کو مشروع کیا گیاہے،حدیث میں بڑی وضاحت سے فرمایا گیا ہے کہ:
کُلُّ بَنِی آدَمَ خَطَّائُ، وَخَیْرُ الْخَطَّائِ یْنَ التَوَّبُوْانَ۔
کونسا فرزند آدم وہ ہے جو خطا کار نہ ہو، مگر خطا کاروں میں بہتر توبہ کرنے والے ہیں ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ کار سب سے اہم نمونہ ہے، روایات میں آتا ہے کہ آپ گناہوں سے کوسوں دور تھے مگر جائز اختیاری امور میں آپ کی نظرِانتخاب ہمیشہ اسی کا م اور پہلو پر رہتی تھی جو آسان ترین ہو اور جس پر عمل دشوار نہ ہو۔
(۳)توازن
اسلامی نظام تربیت ہر قسم کے افراط وتفریط اورغلو وبے اعتدالی سے پاک ہے، اور اس