تو دوسری طرف یہ بھی فرمایا کہ :
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ۔
دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔
اسلام کا یہ رواداری کا نظریہ ہی امنِ عالم کا ضامن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی حکومت کے غیر مسلم باشندوں کو تمام بنیادی حقوق عطا کئے، عزت وآبرو، جان ومال کا تحفظ، دلآزاری سے تحفظ، آزادیٔ عقیدۂ کا حق، عبادت گاہوں کی حفاظت، ضرورت مند ومعذور افراد کو مہیا وسائل سے فائدہ اٹھانے کا حق، سب کچھ عطا فرمایا، فوج کو تنبیہ کی کہ لڑائی میں مذہبی سربراہوں ، عبادت گاہوں کے کارکنوں اورتارک الدنیا افراد سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے، کسی غیر مسلم کو مسلمان سے اذیت پہونچی تو محاسبہ فرمایا، اس طرح امن کی فضا عام کردی۔
(۵) اتحاد واتفاق
یہ حقیقت ہے کہ سب سے مہلک مرض اختلاف وانتشار کا مرض ہے، اور سب سے مفید دوا وعلاج اتحاد واتفاق ہے، امن کے قیام میں اتحاد واتفاق کا کلیدی رول ہوتا ہے، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو اتحاد واتفاق سے رہنے کی تاکید فرمائی، تمام مسلمانوں کو کلمۂ واحدہ کی بنیاد پر ’’بنیان مرصوص‘‘ (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) بننے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ :
اَلْمُؤمِنُ لِلْمُؤمِنِ کَالْبُنِیَانِ، یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضاً۔(بخاری ومسلم)
ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی مضبوطی واستحکام کا باعث ہوتا ہے۔
مزید فرمایا گیا: