میں منحصر سمجھا جائے اور حقوق العباد کی ادائیگی کو جزوِ دین یا قابلِ توجہ نہ سمجھا جائے، اِس توہّم کو اسلام نے اِس طرح زائل کیا کہ حقوق العباد کو بہت سے مواقع پر حقوق اللہ سے اہم قرار دیا، مثلاً کسی مسلمان کا دل خوش کردینا حقوق العباد میں ہے اور بظاہر چھوٹی سی عبادت ہے مگر اللہ کی نگاہ میں اس کا وزن اتنا زیادہ ہے کہ اس کا شمار وحساب نہیں بلکہ ع
دل بدست آور کہ حجِ اکبر است
اسلام کے تمام احکام میں اسی توازن کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے، مال ودولت کو خرچ کرنے کے باب میں ایک طرف فضول خرچی سے منع کیا گیا اور اسے مبغوض ترین قرار دیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف بخل اور تنگی سے بھی روکا گیا ہے، قرآن کہتا ہے:
لاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً إِلَیٰ عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْماً مَّحْسُوراً، إِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَائُ وَیَقْدِرُ، إِنَّہُ کَانَ بِعِبَادِِہِ خَبِیْراً بَصِیْراً۔ ( بنی اسرائیل : ۲۹ـ۳۰)
نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھوـ اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑدو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ، تمہارا رب جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اورجس کے لئے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انھیں دیکھ رہا ہے۔
اسلامی نظامِ تربیت انسان کے جسم وروح وعقل سب پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے تاکہ انسان اس کائنات میں اپنا فرض بحسن وخوبی ادا کرسکے اور اپنی تمام روحانی وجسمانی وعقلی قوتیں پورے توازن کے ساتھ استعمال کرے۔
(۴) عموم وجامعیّت
اسلامی نظام تربیت کی تعلیمات وہدایات انسان کی انفرادی، اجتماعی، خانگی، داخلی،