انسانیت پر اسلام کے عطیات
اِ س وقت میڈیا اور اخبارات میں حقوقِ انسانی کے تعلق سے بڑا شور وغوغہ بپا ہے، متنوع افکار ومضامین اور آراء وخیالات سامنے آرہے ہیں ، مغربی تہذیب کے علمبرداروں اور دنیا کے ٹھیکیداروں کو حقوقِ انسانی کے تحفظ اور اس کی اہمیت کے زبانی اور رسمی (نہ کہ عملی اور قلبی) اعتراف کا خیال اب ہوا ہے، جب کہ آج سے تقریباً پندرہ صدی قبل ہی اسلام نے (جسے آج حقوقِ انسانی کا سب سے بڑا مخالف بتایا جارہا ہے) اور اسلام کے پیغمبر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوقِ انسانی کی اہمیت اجاگر کی تھی، اور اُس ماحول میں اجاگر کی تھی جب ہر طرف جہالت وضلالت، ظلم وجور، جنگ وجدال، تعصب وعناد کے تاریک سائے چھائے ہوئے تھے۔
ہجرت کے دسویں سال ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو موجِ سمندر کی طرح امڈے ہوئے ہجومِ انسانی کو بلاواسطہ اور قیامت تک آنے والے ہر فردِ بشرکو بالواسطہ مخاطب کرتے ہوئے سرکارِ دو عالم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوقِ انسانی کے عالمی منشور کا کھلے لفظوں اعلان کیا تھا اوریہ واضح کیا تھا کہ :
ہرانسان جان محترم ہے، مال محترم ہے، آبرو محترم ہے، امانت کی ادائیگی سب کا لازمی فرض ہے، سود حرام ہے، سب کا رب بھی ایک ہے اور باپ بھی ایک، سب آدم کی اولاد ہیں ، اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا، کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں ، معیارِ فضیلت صرف تقویٰ ہے۔