ہے، اسلامی قانون کی نگاہ میں شاہ وگدا، حاکم ومحکوم سب ایک ہیں ‘‘ جبلہ نے کہا ’’ میں تو یہ سمجھ کر اسلام لایا تھا کہ پہلے سے زیادہ عزت ملے گی لیکن آپ مجھے ایک عام بدو کے ساتھ کھڑا کررہے ہیں ‘‘ حضرت عمر نے فرمایا’’ جبلہ: اسلام خاص وعام میں کوئی امتیاز نہیں کرتا، اسلام میں عزت وبرتری نیک اعمال واخلاق کے حامل شخص کو ملتی ہے، اگر عمرؓ سے کوئی جرم ہوجائے تو اسلامی قانون اس کی بھی گرفت کرے گا، عزت کے خواہاں ہو تو اس بدو کو مناؤ ورنہ مجمع عام میں بدلہ کے لئے آمادہ ہوجاؤ‘‘ اس پر جبلہ نے کہا کہ اگر یہی بات ہے تو میں اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہوجاؤں گا، حضرت عمر نے فرمایا کہ پھر تم مرتد قرار دیئے جاؤگے اور تمہاری گردن ماردی جائے گی، چنانچہ جبلہ نے ایک رات کی مہلت مانگی اوررات ہی میں بھاگ کھڑا ہوا اور پھر عیسائی ہوگیا، کچھ مسلمانوں نے کہا کہ اگر امیر المؤمنین نرمی کرتے تو جبلہ نہ بھاگتا، اس پر حضرت عمرؓنے فرمایا:
بادشاہ ہو یا عامی، قانون اسلامی سب پر نافذ ہوگا، کسی شخصیت کی خاطر اگر میں قانون اسلامی کو معطّل کردوں تو پھر مجھ سے بڑا ظالم اور کوئی نہیں ہوگا۔
قانونِ اسلامی کی تنفیذ میں اسلام حاکم ومحکوم اور شاہ وگدا کا کوئی فرق نہیں رکھتا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل فرمایا کہ ’’ جس کی پشت پر میں نے کوڑا مارا ہو وہ میری پیٹھ پر مارے، جس کی آبرو پر میں نے حملہ کیا ہو وہ مجھ سے پورا قصاص وبدلہ لے لے‘‘ ہر خلیفۂ راشد نے اپنے اپنے دور میں یہ اعلان کیا کہ ’’ میں تم میں افضل ترین نہیں ہوں ، مجھے والی بنادیا گیا ہے، اگر میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرو، اگر غلط کروں تو مجھے سیدھا کرو، جب تک میں اللہ ورسول کی اطاعت کرتا رہوں تم میری اطاعت کرو، اور جب میں اللہ ورسول کی نافرمانی کرنے لگوں تو تم میری اطاعت نہ کرو‘‘ حضرت عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے اپنے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن پر شراب نوشی کی حد نافذ