بعض آیات میں مغفرت وبخشش کا تذکرہ ہے، اور بعض میں پاکیزہ زندگی کی خوشخبری ہے، کسی مقام پر رزق کریم اور درجاتِ عالیہ کا وعدہ ہے، اور کسی مقام پر دوبارہ خلافتِ ارضی کا منصب عطا کئے جانے، قوت وغلبہ دیئے جانے اور خوف کو امن سے تبدیل کئے جانے کا وعدہ ہے، عمل صالح پر رضائے الٰہی کی بھی بشارت ہے اور فلاح وکامرانی کا وعدہ بھی ہے، اعمال صالحہ کرنے والوں ہی کو خسارے سے محفوظ اورخیر الخلائق بھی قرار دیا گیا ہے۔
مفسر دریابادی کے بقول :
نیکی ایمان سے الگ نہیں ، ایمان ہی کی عملی شکل کا نام ہے، ایمان جب تک قلبی ہے، ایمان ہے، اور اگر قولی ولسانی ہے تو اسلام ہے، اور وہی ایمان جب عمل سے ظاہر ہونے لگتا ہے تو اس کا نام حسنِ عمل، حسن کردار یا عمل صالح پڑجاتا ہے، اورحسن عمل کے معنیٰ ہی یہی ہیں کہ وہ عمل رضائے الٰہی کے مطابق ہو، کوئی نیکی اگر ایسی پیش کی جاتی ہے جس کی تہہ میں جذبۂ ایمانی خفیف سا بھی موجود نہ ہو تو وہ نیکی نہیں ، نیکی کی صرف صورت ہے، نیکی کی صرف نقل ہے، عمل نیک کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ وہ عمل ضابطۂ شریعت کے موافق ہو۔ (تفسیر ماجدی:۱/۸۲)
(۴) اسلام کا ستون ورع ہے
ورع کے معنیٰ اصلاً حرام ومکروہ چیزوں سے بچنے کے ساتھ ہی مشتبہ امور سے بھی بچنے کے ہیں ، ایک حدیث میں بھی یہ مضمون آیا ہے :
لا یبلغ العبد أن یکون من المتقین حتی یدع ما لا بأس بہ حذراً لما بہ بأس۔(ترمذی)
کہ جب تک آدمی گناہ میں پڑنے کے خوف سے اُس چیز کو نہ چھوڑدے جس میں کوئی گناہ نہیں یعنی جائز امور کو اس خطرہ وخدشہ کی بنیاد پر جب تک نہ