چھوڑدے کہ یہ کسی ناجائز کام میں مبتلا کردیں گے تب تک آدمی مکمل پرہیزگار نہیں ہوسکتا۔
گویا تقویٰ کا کمال وَرَع ہے، بغیر ورع کے آدمی کمالِ تقویٰ کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا، ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ :
اَلْحَلالُ بَیِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ، وَبَیْنَہُمَا مُشْتَبِہَاتٌ۔(متفق علیہ)
حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی، البتہ ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں ، پس جو ان مشتبہ امور سے بچتا رہے اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچالیا، اور جو ان میں مبتلا ہوگیا وہ حرام میں بھی مبتلا ہوکر رہے گا۔
ورع وپرہیزگاری اسلام کا ستون ہے، قرآن میں حق تقویٰ ادا کرنے کے حکم کے ساتھ ہی یہ بھی حکم ہے کہ تمہاری موت اسلام کی ہی حالت میں آنی چاہئے، معلوم ہوا کہ تقویٰ اور اسلام میں چولی دامن کا ساتھ ہے، ہرایک کی تکمیل دوسرے سے مل کر ہوتی ہے، حق تقویٰ یہی ہے کہ ہر حرام ومکروہ ومشتبہ سے حتی المقدور بچ کر ہر نیکی انجام دی جائے، اور یہی اسلام بھی ہے کہ انسان اپنا وجود اللہ کے دربار میں جھکادے اور ہر شعبہء زندگی میں اس کا مطیع ہوجائے۔
(۵) اسلام کی اساس صحابہ وآل بیت سے محبت ہے
صحابہ کرام ہم تک دین پہونچنے کا ذریعہ ہیں ، انہوں نے دین کو عملی زندگی میں سب سے پہلے نافذ کیا ہے، انہیں امت میں وہی مقام حاصل ہے جو کھانے میں نمک کا ہوتا ہے، حدیث میں ان کو روشن تاروں سے تشبیہ دے کر ان کی اطاعت کو کامیابی کی کلید قرار دیا گیا ہے، قرآن وحدیث میں ان کے کمالِ ایمان وعمل، کمالِ اخلاص وتقویٰ، کمالِ زہد وورع،