اسلام کا عطیہ: آزادئ اظہارِ رائے
اسلام کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے تاریخ انسانی میں پہلی بار انسان کی فکری آزادی کا نعرہ بلند کیا اور انقلاب پیدا کیا، اسلام سے ماقبل کی تاریخ انسان کی فکری آزادی سے محرومی اور جابرانہ نظام میں جکڑے رہنے کی بدترین مثالیں پیش کرتی ہے، اسلام نے فکری آزادی کو نافذ کرکے دکھایا، اور پھر اس کے نمایاں اثرات رونما ہوئے۔
اظہارِ رائے کی آزادی کے نمونے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسیرت صحابہ میں بے شمار ہیں ، چند کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے:
(۱) غزوۂ بدر کے موقعے پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چشمے کے پاس پڑاؤ فرمایا، اس موقعے پر حضرت حباب بن المنذر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اس مقام پر پڑاؤ اللہ کے حکم سے ہے یا جنگی مصلحت کی بنا پر آپ نے اپنی رائے سے یہ جگہ طے فرمائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قیام بحکم خداوندی نہیں بلکہ جنگی تدبیرکے طور پر میں نے یہ جگہ منتخب کی ہے، اس پر حضرت حباب نے کہا کہ میری رائے میں یہ جگہ ناموزوں ہے، ہم کو آگے چل کر دشمن فوج کے قریب میں واقع چشمے کے پاس پڑاؤ ڈالنا چاہئے اورراستے کے تمام پانی کے گڈھے خراب کردینے چاہئیں ، اوراپنی قیام گاہ پر حوض بناکر پانی سے بھرلینا چاہئے، پھر جنگ شروع کرنی چاہئے، تاکہ ہم کو پانی ملے اور دشمن پانی نہ پاسکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تمہاری رائے بہت معقول ہے، چنانچہ اسی پر عمل ہوا اور فتح میں اس کا نمایاں اثر سامنے آیا۔ (البدایہ والنہایۃ:۳/۲۶۷)