کاریگری کو بغور دیکھے، مثلاً زمین ہی ہے جو بے آب وگیاہ، خشک اور چٹیل تھی مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس میں پودے اگتے ہیں پھر وہ رفتہ رفتہ شاداب اور ہری بھری ہوتی چلی جاتی ہے، گویا مردہ زمین کو زندگی مل جاتی ہے،ظاہر ہے کہ عقلِ سلیم کے لئے اس حقیقت پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہونچے بغیر کوئی راستہ نہیں رہے گا کہ اس زمین کو زندگی خدائے واحد نے عطا کی ہے۔
قرآن کہتا ہے:
وَآیَۃٌ لَّہُمُ الأَرْضُ الْمَیْتَۃُ، أَحْیَیْنَاہَا وَأَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَأکُلُوْنَ۔ (یس: ۳۳)
اُن لوگوں کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے، ہم نے اُس کو زندگی بخشی اور اُس سے غلّہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں ۔
آگے بڑھ کر اسلام نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہر مسلمان ہر معاملہ میں کوئی بھی فیصلہ کرنے یارائے دینے یا کارروائی انجام دینے سے قبل عقل کا استعمال کرکے اس معاملہ کے تمام پہلوؤں کی تحقیق وتفتیش ضرور کرلیا کرے، اور جس معاملہ کا اسے علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑے، انسان کی تمام صلاحتیں اللہ کی امانت ہیں اور ہر ایک کے متعلق روزِ قیامت باز پرس ہوگی، قرآن میں وارد ہوا ہے :
وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُوْلٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً۔ ( بنی اسرائیل :۳۶)
کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔
اس آیت میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی ہے، اب نہ عقائد کے باب میں کسی