توہم کی گنجائش ہے، نہ فیصلہ ومعاملات اور باہمی سلوک میں کسی بد گمانی اور وہم پرستی کا کوئی جواز ہے اور نہ ہی علوم وتحقیقات (Research)کی دنیا میں وہمیّات وسطحیّات کی کوئی اہمیت ہے۔
یورپ نے عصر حاضر میں ’’ علمی دیانت داری‘‘ کا جو آوازہ بلند کیا ہے وہ یورپ کے نزدیک جو مطلب بھی رکھتا ہو مگراسلام میں اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ انسان اپنے ہر عمل وحرکت میں اپنے کو جواب دہ تصور کرے، انسان کے اعضاء وجوارح، حواس، عقل ودل سب صحیح رخ پر کام کریں ، حدیث میں فرمایا گیا کہ ’’ گمان سے بچو کہ برا گمان سب سے جھوٹی بات ہے، سب سے بڑا دروغ یہ ہے کہ انسان اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے (لوگوں کے سامنے اس چیز کو اپنی دیکھی ہوئی بتائے)جو انھوں نے دیکھی نہ ہوں ‘‘۔
اسلام نے عقلِ انسانی کو اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ وہ مادّی طاقت کو اپنے زیر اختیار (Under Control)کرلے، ہاں جائز حدود کی پاسداری ہمہ وقت ملحوظ رہے، فرمایا گیا:
کُلُوْا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ۔ ( البقرۃ : ۱۷۲)
ہم نے تم کو جو حلال وپاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ۔
آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ عقل آخری ذریعۂ معلومات نہیں بلکہ اس سے اوپر وحی الٰہی ہے، اس لحاظ سے عقل کا دائرہ کار واختیار لا محدود (Unlimited)نہیں ہے، مشہورمؤرخ وفلسفی ابن خلدون کے بقول عقل کی مثال سونا تولنے کے کانٹے جیسی ہے جس میں سونا ہی تولا جاسکتا ہے، اگر اس میں پہاڑ تولا جائے گا تو وہ کانٹا ٹوٹ جائے گا، ( مقدمہ ابن خلدون) اس لئے عقل صرف ایک حد تک رہنمائی کرتی ہے، اُس سے آگے اس کی رہنمائی غلط سمت میں چلی جاتی ہے، اسلام نے عقل کے استعمال کے حدود اور دائرے متعین