والوں کو سوراخ کرنے سے روک لیں تو ان کی بھی جان بچے گی اور نیچے والوں کی بھی، مگر اگرنہ روکیں تو دونوں تباہ ہوں گے۔ (مشکاۃ المصابیح)
معاشرہ میں ہونے والے گناہوں پر خاموشی بالآخر پورے معاشرہ کی تباہی پر منتج ہوتی ہے، گناہوں کا انگیز کرلینا خود گناہ ہے اور ؎
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں قوموں کے گناہوں کو معاف
انسان پر اسلام نے کچھ ذمہ داریاں اس کی انفرادی حیثیت سے عائد کی ہیں اور کچھ ذمہ داریاں اُس کے جزوِ معاشرہ ہونے کی حیثیت سے، قرآن میں تمام مسلمانوں کو حکم ہے۔
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَیٰ وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَیْ الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔ ( المائدہ:۲)
نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں سب سے تعاون کرو اور گناہ وزیادتی کے کاموں میں کسی سے تعاون نہ کرو، اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے۔
یہ متنوع انفرادی واجتماعی ذمہ داریاں در اصل اسلامی نظامِ تربیت کے توازن کی نمایاں مظہر ہیں ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تقسیم بھی اسی طرف مشیر ہے، حقوق العباد کو جو خاص اہمیت اسلام نے دی ہے وہ اس کے توازن واعتدال کا ثمرہ ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ :
اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی مسجد نبوی کے ایک ماہ کے اعتکاف سے بہتر ہے۔
اس سے حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اِس طرح اسلام نے اس تصور پر ضرب لگائی ہے کہ دین کو صرف عبادات وحقوق اللہ