صحیح اور معتدل امتزاج کو کمالِ انسانیت باور کرتا ہے، ایک طرف اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ انسان اللہ سے اپنا رابطہ اٹوٹ اور پائیدار رکھے اور کسی بھی لمحہ میں یہ رابطہ ٹوٹنے نہ دے کیونکہ روحانی قوت اسی طرح پیدا ہوسکے گی جو انسان کی سب سے اہم اور اولین طاقت ہوتی ہے، وہیں دوسری طرف اسلام انسان کی کمزوریوں ، بشری خامیوں کو بھی پیشِ نظر رکھتا ہے، اور اسی کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔
یُرِیْدُ اللّٰہُ أَنْ یُخَفِّفَ عَنْکُمْ، وَخُلِقَ الإِنْسَانُ ضَعِیْفاً۔( النساء :۲۸)
اللہ تم پر سے پابندیوں کوہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
اور یہ بھی فرمایا گیا کہ:
لاَیُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا، لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ۔( البقرۃ :۲۸۶)
اللہ کسی مُتنفّس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا، ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اُسی پر ہے۔
انسان جسم وارادہ دونوں اعتبار سے کمزور ہے اسی لئے تمام احکام شریعت میں انسان کے جسمانی ضعف اور ارادی کمزوری کا لحاظ رکھا گیا ہے اور سہولتیں دی گئی ہیں ، اللہ خود فرماتا ہے:
یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ (البقرۃ: ۱۸۵)
اللہ تمہارے حق میں سہولت چاہتا ہے اور تمہارے حق میں دشواری نہیں چاہتا۔