کے ہر شعبہ میں توازن واعتدال کا جوہر نمایاں رہتا ہے، اسلام فرد کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر کچھ انفرادی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اس لئے کہ:
وَکُلُّہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْداً۔ (مریم :۹۵)
سب لوگ قیامت کے روز فرداً فرداً اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے۔
معاشرہ فی الواقع افراد کے مجموعہ کا نام ہے، صالح معاشرہ ان صالح افراد سے مرکّب ہوتا ہے جو اپنی ذمہ داریاں جانتے اور نبھاتے ہوں اور ہر مرحلہ پرحق کی پاسداری کرتے ہوں اور باطل ومنکر کے لئے پھلنے پھولنے کا کوئی بھی موقعہ نہ رہنے دیتے ہوں ،مگر جب معاشرہ میں ایسے افراد آجاتے ہیں جو صحیح اور راست روش سے انحراف کے عادی ہوں تو پھر پورا معاشرہ تباہی کے دہانہ پر آجاتا ہے، اور اگر غلط کاروں کا قلع قمع نہ ہو تو تباہی کے وقوع میں کچھ بھی دیر نہیں لگتی، معاشرہ تمام افراد کی راست روی سے ہی درست رہ سکتا ہے ورنہ ؎
چوں از قومے یکے بے دانشی کرد
نہ کِہ را منزلت باشد نہ مِہ را
قوم کے کسی ایک فرد کی بے عقلی قوم کے ہر چھوٹے بڑے کی عزت کو ملیا میٹ کردیتی ہے۔
معاشرہ کے بگاڑ پر خاموشی بگاڑ کو بڑھاوا دینا ہے، بگاڑ لانے والوں اور اس پر خاموش تماشائی بنے رہنے والوں کی صحیح ترین تصویر کشی ایک حدیث میں کئی گئی ہے کہ:
گنہ گار اور گناہوں پر خاموش تماشائی افراد کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دو منزلہ کشتی ہو جس میں کچھ لوگ نچلی منزل میں اور کچھ بالائی منزل میں سوار ہوں ، نیچے والوں کو پانی لینے اوپر جانا پڑتا ہو، اب وہ یہ سوچیں کہ بار بار اوپر جانے کی زحمت سے بچاؤ کے لئے نیچے ہی سوراخ کرلیں ، اب اگر اوپر کے لوگ نیچے