متعین کئے ہیں اوران حقوق میں کسی بھی طرح کی کوتاہی سے اہل اسلام کو منع کیا گیا ہے، ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ :
جو کسی ایسے غیر مسلم انسان کو قتل کرتا ہے جس کا مسلمانوں سے عہدِ امان ہو تو یہ قاتل اللہ ورسول کے ذمے کو توڑنے والا ہے، اس کی سزا یہ ہوگی کہ وہ جنت کی ستر سال کی مسافت سے محسوس کی جانے والی خوشبو تک محسوس نہ پائے گا۔ (ترمذی)
نجران کے عیسائیوں کا وفد جب مدینہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قیام مدینہ کے دوران اپنے دین کے مطابق نماز ادا کرنے سے نہ روکا، ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر آپ کھڑے ہوگئے، کسی نے بتایا کہ یہ تو یہودی تھا، آپ نے فرمایا کہ کیا انسان نہیں تھا؟ یعنی اس کا انسان ہونا اس کے احترام کی دلیل ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر نے بکری ذبح کرائی اور بڑی تاکید کے ساتھ اس کا گوشت سب سے پہلے اپنے یہودی ہم سائے کے پاس بھیجا، عہد فاروقی میں کسی یہودی نے حضرت علیؓ کی شکایت کردی، حضرت عمرؓ نے حضرت علی کو بلوایا اور کہا اے ابوالحسن! کیا معاملہ ہے؟ معاملے کے تصفیہ کے بعد حضرت عمرنے حضرت علی کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر پوچھا کیا آپ اس لئے ناراض ہیں کہ ایک یہودی کے ساتھ آپ کو عدالت میں کھڑا کیا گیا؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ نہیں مجھے غصہ آپ کی ناانصافی پر آیا ہے، آپ نے یہودی کا نام لیا اور مجھے کنیت سے پکارا، جب کہ انصاف ومساوات کا تقاضا یہ تھا کہ آپ میرا نام لے کر پکارتے کیونکہ کنیت سے پکارنا احترام کی دلیل ہے، اور عدالت میں دونوں فریقوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہئے۔
اسلام اپنے متبعین کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ معاشرے کے اپاہج، نہ کماسکنے والے معذور افراد اورضروت مند عورتوں پر ضرور مال خرچ کریں اور ان کا حق ادا کریں ، خواہ یہ معذور وحاجت مند افراد مسلمان ہوں یا غیرمسلم، حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں ایک نابینا بوڑھے