پذیر ہوئیں ، غزوۂ خندق میں سبھی قابل ذکر مشرک قبائل عرب اہل اسلام پر حملہ آور ہوئے تھے، اس موقعے حکم دیا گیا:
وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَافَّۃً۔ (توبہ/۳۶)
مشرکوں سے مل کر لڑو جیسا کہ وہ تم سے مل کر لڑتے ہیں ۔
اسی طرح یہودیوں کے ساتھ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہ ان کی بدعہدی اور سازشوں کا ردّ عمل تھا، ان کی جلاوطنی اور سزائے قتل ان کے بھیانک جرائم کی سزا تھی۔
اسلام کی اصول پسندی اور انسانیت نوازی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ میدانِ جنگ تک میں دشمنوں کے بچوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور غیر جانبدارافراد اور جنگ سے بے تعلق مذہبی لوگوں کو قتل کرنے اور چھیڑنے سے روکتا ہے، کسی علاقے کے فتح ہونے کے بعد وہاں کے غیر مسلم باشندوں کو ان کے مذہب، عقائد اورمذہبی شعائر میں آزاد رکھا جاتا ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فتح بیت المقدس کے بعد ایلیا کے باشندوں کو جان، مال، عزت آوبرو کی حفاظت اور گرجا گھروں ، صلیبوں ، مذہبی شعائر کے سلسلے میں امان وآزادی دی تھی اور تحریری معاہدے میں یہ وضاحت کی تھی کہ انہیں اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور کسی قسم کا نقصان انہیں نہیں پہونچایا جائے گا، یہی امان اور عہد حضرت عمرو بن العاصؓ نے فتح مصر کے بعد وہاں کے غیر مسلم باشندوں سے کیا تھا۔
یہود ونصاریٰ اوردیگرغیر مسلموں سے مذہبی گفتگو کرتے وقت اسلام نے اپنے متبعین کو شائستہ اسلوب اپنانے اور مناظرہ ومجادلہ سے بچنے اور اضطراری حالت میں مباحثہ ومناظرہ کرنے اور اس میں شائستگئ اسلوب ولہجہ، معقولیت اور نرمی اپنانے اور سخت کلامی اور سب وشتم پر اتر آنے سے مکمل اجتناب کے واضح احکام دیئے ہیں ۔
وہ غیرمسلم جو مسلمانو ں کے ساتھ ایک علاقے میں مقیم ہیں اسلام نے ان کے حقوق