اگر اہل کفر تم سے کنارہ کش ہوجائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمہاری طرف صلح وآشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لئے اُن پردست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔
اور
وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ۔ (الانفال/۶۱)
اگر دشمن صلح وسلامتی کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی اس کے لئے آمادہ ہوجائیے اور اللہ پر بھروسہ کیجئے۔
لیکن
وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذَ إِلَیْہِمْ عَلَیٰ سَوَائٍ، إِنَّ اللّٰہَ لاَیُحِبُّ الْخَائِنِیْنَ۔ (الانفال/۵۸)
اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اُس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔
معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے اہل اسلام کے روابط عام طور پر پرامن اور خیرخواہانہ ہونے چاہئیں ، ان کی صلح کی پیش کش کو اسلام سراہتا اور ماننے کا حکم دیتا ہے، اگر ان کی طرف سے مخالفانہ اقدامی کارروائی نہ ہو، اور کوئی منصوبہ سازی نہ ہو تو ان سے تعرض ممنوع ہے، ہاں ان کی بدعہدی، مخالفانہ اقدامات اور مبنی برفتنہ منصوبہ سازیوں کا جواب ضرور دیا جائے گا اور یہ سب دائرۂ عدل میں رہ کر ہوگا، ہجرتِ مدینہ کے بعد مشرکین عرب، یہود مدینہ اورغسانی عیسائیوں اوررومیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیاں انہیں اسلامی اصول کی روشنی میں تھیں ، مشرکین عرب سے جو جنگیں ہوئی ہیں وہ عموماً سبھی دفاعی ہیں ، اور ان کے بے پناہ ظلم، بدعہدی، سازشوں اورمنصوبہ بندیوں اور عملی جنگ اقدامات کے ردِ عمل اور دفاع میں ظہور