ارشادِ قرآنی ہے:
نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ وَمَا أَنْتَ عَلَیْہِمْ بِجِباَرٍ۔ (قٓ/۴۵)
اے نبی! جو باتیں یہ لوگ بنارہے ہیں انہیں ہم خوب جانتے ہیں ، آپ کا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے۔
حکم ربانی ہے:
فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرْ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُسَیْطِرٍ۔ (الغاشیۃ/۲۱-۲۲)
آپ نصیحت کئے جائیے! آپ کا کام بس نصیحت کرنا ہے، آپ ان پر جبر نہیں کرسکتے۔
بنوسالم بن عوف کے ایک صاحب حضرت حصینؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو عیسائی بیٹوں کو اسلام پر مجبور کرنے کی اجازت چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سختی سے منع کردیا اور یہ واضح کردیا کہ اسلام میں کوئی جبر اور زبردستی نہیں ہے۔
اسی طرح اسلام کا اصول یہ ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات، معاہدات اور مصالحت کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جاسکتا جب تک غیر مسلموں کی طرف سے بدعہدی، بدمعاملگی، خیانت، فتنہ پردازی اور علانیہ اظہار عداوت سامنے نہ آجائے، قرآن اپنے پیروؤں کو ظلم وزیادتی سے روکتا ہے، اور ظلم پر اللہ کی ناپسندیدگی کا برملا اظہار کرتا ہے، اسلام انتقام سے درگذر کو بہتر بتاتا ہے، اور انتقام میں مکمل عدل وانصاف کو لازم اور زیادتی کو ناجائز قراردیتا ہے، اسلام اہل اسلام کو کفار کے مطالبۂ صلح کو ماننے اور صلح کو بہر صورت ترجیح دینے کی تلقین کرتا ہے، اور واضح کرتا ہے:
فَإِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقُاتِلُوْکُمْ وَأَلْقَوْا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبِیْلاً۔ (النساء/۹۰)