یہاں مولانا آزاد کے بقول:
غور کرو کتنی عظیم الشان بات کتنے مختصر لفظوں میں کہہ دی ہے: فرمایا کہ فکر واستعداد کا اختلاف یہاں ناگزیر ہے اور ایمان کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ زور وزبردستی سے کسی کے اندر ٹھونس دی جائے، یہ تو اسی کے اندر پیدا ہوگا جس میں فہم وقبول کی استعداد ہے۔ اس آیت سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ قرآن کے نزدیک دین وایمان کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں جبرواکراہ کی صورت کا ذکر ایک انہونی اور ناکردنی بات کی طرح کیا گیا ہے۔(ترجمان القرآن:۳/۵۵۶-۵۵۷)
پیغمبر کی زبانی یہ حقیقت واضح کی گئی:
قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَائَ کُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنِ اہْتَدَیٰ فَإِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا وَمَا أَنَا عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ۔ (یونس/۱۰۸)
آپ کہہ دیجئے اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے، اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لئے مفید ہے اور جو گمراہ ہے اس کی گمراہی، اسی کے لئے تباہ کن ہے اور میں تمہارے اوپر کوئی حوالہ دار نہیں ہوں ( کہ زبردستی مسلمان بنادوں )
فرمایا گیا:
فَإِنْ أَعْرَضُوْا فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظاً إِنْ عَلَیْکَ إِلاَّ الْبَلاَغُ۔ (الشوریٰ/۴۸)
اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبی! ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بناکر تو نہیں بھیجا ہے، آپ پر تو صرف بات پہونچادینے کی ذمہ داری ہے۔