رہتی، لیکن واقعہ یہ ہے کہ صرف مغالطہ ہے، اس لئے کہ جہاد اصلاً فتنہ، ظلم، تشدد اور فساد فی الارض کے انسداد کے لئے ہے نہ کہ دوسروں کو قبولِ اسلام پر مجبور کرنے اوراشاعت ِ اسلام کے لئے، اشاعت اسلام کا طریقہ صرف دعوت ہے، اس لئے کہ دین دل کے اعتقاد ویقین سے تعلق رکھتا ہے اوریہ اعتقاد صرف دعوت وموعظت سے پیدا ہوسکتا ہے نہ کہ جبر واستکراہ اور تشدد سے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک بار انہوں نے ایک عیسائی بوڑھی عورت کو دعوتِ اسلام دی، بڑھیا نے کہا کہ میں ایک قریب المرگ بڑھیا ہوں آخری وقت میں اپنا مذہب کیوں چھوڑوں ؟ حضرت عمر نے یہ سن کر اسے ایمان پر مجبور نہیں کیا اوریہی اصولِ قرآنی بیان فرمایا کہ دین کے معاملے میں کوئی جبرنہیں ہے، معلوم ہوا کہ اسلامی نظام میں اس بات کی پوری گنجائش موجود ہے کہ اہل کفر اپنے کافرانہ عقیدے پر باقی رہتے ہوئے اسلامی حکومت کی رعایا رہ سکتے ہیں اور اس صورت میں ان کے تمام ترحقوق کی رعایت وحفاظت اسلامی حکومت کا فرض اورمسئولیت ہے، قرآن اس اسلامی اصول کا جابجا اعادہ کرتا ہے، فرمایاگیا:
وَلَوْ شَائَ رَبُّکَ لآمَنَ مَنْ فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُوْنُوا مُؤمِنِیْنَ۔ (یونس/۹۹)
اگر آپ کا رب چاہتا ہے تو روئے زمین کے سبھی انسان مسلمان ہوجاتے (اور دنیا میں عقیدہ وعمل کا اختلاف باقی ہی نہ رہتالیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس کی مشیت یہی ہوئی کہ طرح طرح کی طبیعتیں اور طرح طرح کی استعداد یں ظہور میں آئیں ، پھر اگر لوگ نہیں مانتے تو) کیا آپ ان پر جبرکریں گے کہ جب تک ایمان نہ لاؤ (میں چھوڑنے والا نہیں ہوں )