طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ وعیسیٰ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی، ہم اُن کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مطیع ہیں ۔
اس میں واضح کردیا گیا ہے کہ امت محمدیہ خدا کی نازل کردہ کسی ہدایت کی تردید اورکسی نبی اوررسول کی تکذیب نہیں کرتی بلکہ بغیر کسی استثناء اورتخصیص وتفریق کے سب پر ایمان رکھتی ہے۔
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ سیاست وحکومت کو دین کا اہم ترین حصہ قرار دیتا ہے، اس میں دین وسیاست دو متضاد چیزیں نہیں ہیں ، حکومت وسیاست کے ذیل میں جو اسلامی تعلیمات ملتی ہیں وہ نرمی، مساوات، انسانیت، مذہبی ومسلکی فرقہ پرستی سے یکسر دوری، عدل، تواضع اوردوسرے مذاہب کے احترام جیسے عناصر پر مشتمل ہیں ، اور ان کا ایک سرسری مطالعہ اس حقیقت تک رسائی کے لئے بالکل کافی ہے کہ اسلام حقوقِ انسانی کا سب سے بڑا محافظ اور اس فکر کا اولین حامل وعلم بردار ہے۔
اسلام کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو اسلام لانے پربالکل مجبور نہیں کیا جاسکتا، قرآن اس کی وضاحت یوں کرتا ہے:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۔ (البقرۃ/۲۵۶)
دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے۔
اس آیت کے ذیل میں کج فکروں کی طرف سے یہ مغالطہ انگیزی کی جاتی ہے کہ جہاد درحقیقت دوسروں کو قبولِ اسلام پر مجبور کرنا ہے، لہٰذا یہ اصول ’’کہ دین میں جبر نہیں ‘‘
اسلام کے دوسرے حکم جہاد سے ٹوٹ جاتا ہے، اور اس کی کوئی معنویت باقی نہیں