لئے آزاد وبے لگام ہوجائے، بلکہ ان تمام عبادات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بندۂ مؤمن کے قلب وضمیر میں تقویٰ وخداترسی کی تخم ریزی کی جائے، اور اسے ایسی روحانی غذا اور طاقت اور نور مل جائے کہ جب بھی غفلت کے آثار آئیں اسے فوراً اللہ کی یاد آنے لگے، جب اس کے عزم میں کمزوری آئے اسے طاقت مل جائے اور کبھی ظلمت اس پر حملہ آور نہ ہوسکے۔
ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے لکھا ہے کہ:
اسلام ایسے مسلمان کو پسند نہیں کرتا جو مسجد میں تو ربانی رہے، رکوع وسجدہ میں مشغول رہے لیکن جب مسجد سے باہر نکلے تو وہ حیوانی یا شیطانی بن جائے، اور اپنی عملی زندگی میں اللہ کے بجائے نفس وشیطان کی غلامی کرنے لگے، اسلام یہ بھی نہیں گوارا کرتا کہ مسلمان صرف رمضان میں ربانی رہے، اور رمضان کے بعد اس کا سلسلۂ عبادت موقوف ہوجائے، اور وہ اپنی طرزِ عمل سے یہ ثابت کرے کہ وہ رمضان کی عبادت کررہا تھا نہ کہ رمضان کے مالک خدا کی، سلف صالح کا مشہور قول ہے {کُنْ رَبَّانِیّاً وَلاَ تَکُنْ رَمَضَانِیّاً} ربانی بن جاؤ، رمضانی (صرف رمضان کے عبادت گذار ) نہ بنو، اسی طرح اسلام یہ نہیں چاہتا کہ آدمی جب تک بلادِ حرم میں رہے اللہ والا رہے لیکن حج وعمرہ سے واپس آنے کے بعد پھر وہ مادّیت کے طوفان میں بہنے لگے اور اللہ سے اس کا رشتہ کمزور ہوجائے، اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان صدفیصد اسلام میں داخل ہوجائے، اس کا اپنے مالک سے رشتہ اتنا مستحکم اور اٹوٹ ہوجائے کہ اس پر زمان ومکان، مواقع وحالات، اوقات وظروف کسی بھی طرح اثر انداز اور حائل نہ ہوسکیں ۔ (الخصائص/۲۹-۳۰)
اسی لئے حدیث میں واضح حکم ہے:
اِتِّقِ اللّٰہَ حَیْثُمَا کُنْتَ۔ (ترمذی)