الگ ہوکر، اپنی جسمانی مشقتوں اور مالی مصارف کی پروا کئے بغیر انجام دینے حرم مقدس پہونچتا ہے اور خاص ادا اور لباس میں اپنی مسکنت اور عجز کے اظہار کے ساتھ لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ کا نعرۂ جانفزا اور روح پرور لگاتا ہوا فریضۂ حج ادا کرتا ہے اور اپنی بندگی کے ذریعہ اپنی عاشقی کا ثبوت پیش کرتا ہے، درحقیقت یہ عبادت بندۂ مؤمن کو ربانی بنانے کے عمل میں بیحد مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
فرض عبادتوں کے علاوہ نوافل وتطوعات کا پورا شرعی نظام بندے اور رب کے مابین تعلق وقرب کی افزائش ہی کے لئے ہے، حدیث قدسی ہے:
مَا تَقَرَّبَ إِلیَّ عَبْدِیْ بِمِثْلِ اَدَائِ مَا افْتَرَضْتُہُ عَلَیْہِ، وَلاَ یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلیَّ بِالنَّوَافِلِ، حَتَّی أُحِبَّہُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہِ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہِ، وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہَا، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہُ، وَلَئِنْ سَأَلَنِیْ لَأُ عْطِیَنَّہُ۔ (ایضاً/۲۹)
بندہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعے جتنا مجھ سے قریب ہوتا ہے کسی اور ذریعے سے اتنا قریب نہیں ہوتا، بندہ نوافل کی ادائیگی کے ذریعے مسلسل مجھ سے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اگر وہ مجھ سے پناہ کا طالب ہو تو میں ضرور اسے پناہ دوں گا، اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں ضرور اسے عطا کروں گا۔
فرض ونفل تمام عبادات کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مسلمان بس صرف چند لمحوں کے لئے اپنے مالک سے اپنا رشتہ مستحکم کرے پھر وہ اپنی ہوا وہوس کی دنیا میں رنگ رلیاں منانے کے