مشغولیات اور ہنگاموں میں جب انسان ڈوب جاتا ہے تو مؤذن کی پنج وقتہ صدائے تکبیر اور دعوتِ نماز وخیر انسان کو دنیوی ہنگامی کی موجِ بلا خیز سے نکال کر خدائے واحد کے دربار میں کھڑا کرتی ہے، جھکاتی اور سجدہ ریز کرتی ہے، یہی صدائے دل نواز اس کے ہاتھ بارگاہِ صمدیت میں دراز کراتی ہے پھر اخلاص وبے لوثی اور مکمل عجز وانکسار سے مانگی جانے والی دعا مستجاب ہوتی ہے اور انسان کی روحانی ترقی کا سامان فراہم ہوتا ہے۔
سال بھر میں مکمل ایک ماہ تک روزوں کی عبادت کا حکم ہے جس میں ایک مسلمان کو خورد ونوش اور جنسی شہوت سے مکمل اجتناب کرنا ہوتا ہے، مکمل ایک ماہ تک صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزے کے ذریعہ تقویٰ، پرہیزگاری، کمال عبدیت وبندگی کی تربیت کے ذریعہ بندے کو اللہ سے جوڑنے اور ربانی بنانے کا کام ہوتا ہے، ایک حدیث قدسی میں آیا ہے :
اَلصِّیِامُ لِیْ، أَنَا أَجْزِیْ بِہِ، یَدَعُ طَعَامَہُ مِنْ أَجْلِیْ، وَیَدَعُ شَرَابَہُ مِنْ أَجْلِیْ، وَیَدَعُ زَوْجَتَہُ مِنْ أَجْلِیْ، وَیَدَعُ لَذَّتَہُ مِنْ أَجْلِیْ۔ (الخصائص العامۃ للقرضاوی/۲۸)
روزہ میرے لئے ہے، میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، بندہ میرے لئے اپنا کھانا پینا چھوڑتا ہے اور میری خاطر اپنی بیوی اور لذت سے کنارہ کش ہوتا ہے۔
زکاۃ کی مالی عبادت انسان کے قلب وروح اور مال ودولت کی تطہیر وتزکیہ کے لئے اور بخل وحرص کے رذائل کا قلع قمع کرنے کے لئے مشروع کی گئی ہے، اور ہر مسلمان کو بطیب خاطر حق لازم سمجھ کر ادائے زکاۃ کا حکم شرعی فی الواقع اس کو اس کے رب حقیقی سے جوڑنے کے مقصد سے دیا گیا ہے۔
حج کی والہانہ اور عاشقانہ عبادت جو انسان اپنے وطن سے دور، اپنے خاندان سے