کی قربانی کو اپنے لئے فخر وشرف باور کرتا ہے، اس کی مجاہدانہ اور دلیرانہ سرگرمیوں کا مقصد نام ونمود، دنیوی شہرت اور مادّی منافع نہیں بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ ہوتا ہے۔
واقعہ یہی ہے کہ یہی گروہ سب سے زیادہ کامیاب، بامراد، سعادت مند اور قابلِ رشک گروہ ہے، جو آخرت کو ترجیح دیتا ہے مگر دنیا بھی اس کے قدموں میں آپڑتی ہے، وہ دنیا میں بھی حسنہ پاتا ہے اور انشاء اللہ آخرت کا حسنہ بھی اس کا نصیب ضرور ہوگا، اس گروہ کا ربانی مزاج اگرچہ بعض فوری لذتوں اور وقتی منافع سے اسے محروم کردے مگر یہ محرومی اپنے جلو میں خیر کے بے پناہ پہلو رکھتی ہے اور دور رس مضرتوں سے اس کو محفوظ رکھتی ہے، اور اسے جو نفسیاتی سکون اور روحانی اطمینان حاصل ہوتا ہے اس کی بجا طور پر کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی، یہی وہ سعادت ہے جس کے بارے میں کسی حکیم ودانا کا یہ قول آج بھی روشن ہے :
لَوْ عِلْمَ بِہَا الْمُلُوْکُ لَجَالَدُوْنَا عَلَیْہَا بِالسُّیُوْفِ۔
کہ اگر اس سعادت کا علم بادشاہوں کو ہوجائے تو وہ تلواروں سے ہم پر حملے کرکے یہ سعادت حاصل کرنا چاہیں گے۔
مذکورہ تفصیل سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام کا اصل مقصد انسان کو شہوت اور شیطان کے پھندوں سے نکال کر ربانی بنانا اور اللہ کے رنگ میں رنگ دینا اور اسی قالب میں ڈھال دینا ہے، انسان کو ربانیت کے قالب میں ڈھالنے کا کام اسلام عبادات کے راستے سے بھی کرتا ہے اور آداب واحکام واخلاق کے راستے سے بھی، عبادات میں پہلا درجہ نمازوں کا ہے، فرض اور نفل دونوں قسم کی نمازوں سے انسان کو ربانی بنانے کا مقصد پورا ہوتا ہے، نماز انسان کے روح کے لئے غذا ثابت ہوتی ہے، جس طرح جسم دن میں کئی بار غذاؤں کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح روح کے لئے بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو نمازوں کی شکل میں مہیا ہوتی ہے، نماز ہمہ وقت انسان کو اللہ سے جوڑے رکھتی ہے، زندگی کے میدان میں اور دنیوی