کرتا ہے، حضرت آدم کے صاحبزادے ہابیل کا قابیل کی دھمکی کے جواب میں جو ردّ عمل تھا وہ اسی کا واضح نمونہ ہے، قرآن میں ہابیل کا یہ قول مذکور ہے
لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِی مَا أَنَا بِبِاسِطٍ یَدِيَ إِلَیْکَ لأَقْتُلَکَ، إِنِّیْ أَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔ (المائدہ/۲۸)
اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔
یہاں ایک بھائی دوسرے بھائی کو قتل کی دھمکی دے رہا ہے، اس موقعے پر صحیح مؤمنانہ رویہ یہی ہے کہ آدمی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا بھائی اس کے قتل کے درپے ہو اُس کے قتل کا آغاز نہ کرے، آغاز نہ کرنا دفاع اور بچاؤ کی نفی نہیں کرتا، مولانا آزاد لکھتے ہیں ’’ہابیل کی صدا میں تمام نوعِ انسانی کی راست بازی ونیک عملی بول رہی تھی، اور قابیل کے عمل میں تمام ظالم انسانوں کی سرکشی وشقاوت کا ہاتھ تھا، اب انسان کے سامنے دو راہیں کھل گئیں ، نیکی وراستی کبھی انسان کے خون سے ہاتھ نہیں رنگے گی، ظالم کا ہاتھ ہمیشہ رنگین رہے گا۔ (ترجمان القرآن:۲/۶۱۶)
شہوانیت اور شیطانیت سے پاک ربانی گروہ دعوتِ حق، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اصلاح بین الناس، دوسروں کی ہم دردی وغم گساری، جاہلوں کی تعلیم، سرگشتہ لوگوں کی رہنمائی، اور گم گشتہ راہ افراد کی رہبری کے جو کام بھی کرتا ہے اس کی صدا :
مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ، إِنِ أَجْرِیَ إِلاَّ عَلَی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
میں اس کام پر تم سے کسی معاوضے کا طالب نہیں ، میرا اجر تو صرف رب العالمین کے ذمے ہے۔
ہوتی ہے، اس کا سر راہِ حق میں ہر دم اُس کی ہتھیلی پر ہوتا ہے، وہ راہِ حق میں جان ومال