اور انتہا نہیں بلکہ ذریعہ اور وسیلہ ہوتی ہے، وہ دنیا کو اپنے قابو میں کرتا ہے، دنیا کے قابو میں نہیں ہوتا، دنیا اس کے ہاتھ اور جیب میں تو ہوسکتی ہے مگر دنیا کو وہ کبھی اپنے دل کے نہاں خانوں میں جگہ نہیں دیتا، اُس کی زبان پر اُس کے رہنما پیغمبر اسلام علیہ السلام کی دعا کے یہ جامع اور بلیغ الفاظ آتے رہتے ہیں کہ:
اَللّٰہُمَّ لاَ تَجْعَلِ الدُّنْیَا أَکْبَرَ ہَمِّنَا وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا۔
اے اللہ! دنیا کو ہمارا اصل مقصد اور منتہائے علم نہ بنائیے۔
بجا طور پر اس تیسرے گروہ کو ربانی گروہ کہا جاسکتا ہے، جس کا ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا ہے،جس کی ہر نقل وحرکت راہِ خدا میں ہوتی ہے، وہ اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ جو حسن سلوک اور تعاون کا معاملہ کرتا ہے وہ بھی اپنے لئے نہیں بلکہ اللہ کے لئے کرتا ہے، قرآن میں اسی گروہ کے متعلق وارد ہوا ہے۔
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَیْ حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْمًا وَأَسِیْراً، إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَنُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَائً وَلاَ شُکُوْراً۔(الدھر/۸-۹)
وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ، یعنی اُن کے انفاق کا باطنی محرک صرف جذبۂ طلبِ رضائے باری ہوتا ہے۔
وہ دوسروں پر نہ دست درازی کرتا ہے اور نہ زبان درازی، اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ؎
مری زباں وقلم سے کسی کا دل نہ دُکھے
کسی کو شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ سے
وہ برائی کا جواب برائی کے بجائے اچھائی سے دیتا ہے، اور ایسا صرف اللہ کے لئے