سنتے نہیں ، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گئے گذرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں مبتلا ہیں ۔
دوسرے مقام پر فرمایا گیا:
أَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰہَہُ ہَوَاہُ، أَفَأَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً، أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ أَوْ یَعْقِلُوْنَ، إِنْ ہُمْ إِلاَّ کَاْلأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً۔ (الفرقان/۴۳-۴۴)
کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنالیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اورسمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں ، بلکہ اُن سے بھی گئے گذرے۔
خواہش پرستوں کے اس طبقہ کو قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ اندھا، بہرا، مردہ دل اور جانوروں تک سے بدتر قرار دیا ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جانور اپنا متعلقہ کام بہر صورت انجام دیتے ہیں ، گائے دودھ ضرور دیتی ہے، اونٹ اپنی پشت پر انسان کو سوار ہونے سے نہیں روکتا، سارے جانور انسان کی خدمت کے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں ، بار برداری، کھیتوں سے متعلق کام، دودھ، بال اون وغیرہ سے متعلق فائدے ان کے ذریعہ انسان کو حاصل ہوتے ہیں ، دوسری وجہ یہ ہے کہ جانوروں کو انسان کی طرح فکری، عقلی اور روحانی صلاحیتوں سے نوازا نہیں گیا ہے، انسان کو یہ سب صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں ، اس کے باوجود اگر انسان اللہ کی ان عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا نہ کرے، اپنا فرضِ منصبی بھول جائے، اور صرف پیٹ اور شہوت کو مقصدِ زندگی بنائے تو لامحالہ وہ جانوروں سے زیادہ بدتر قرار پائے گا۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد حیات صرف دوسروں کو نقصان پہونچانا،