تمام تر قدرتِ انتقام کے باوجود اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنانِ مکہ کو تمام تر قدرتِ انتقام کے باوجود یک لخت معاف کردیا، اور اس کی ایک ہی بنیاد تھی، وہ ان کی ربانیت تھی۔
سیرتِ یوسفی کے اس پہلوئے عفو ودرگذر پرتبصرہ کرتے ہوئے ترجمان القرآن کے مصنف کا قلم یوں لکھتا ہے:
غور کرو! عفو وبخشش کا وہ کیا مقام ہے؟ ہمت کا وہ کیا علو ہے؟ ظرف کی وہ کیسی پہنائی ہے؟ خُلق کی وہ کیسی عظمت ہے جو دشمنی کرنے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کرسکتی ہے؟ اور جس سیرت کا یہ حال ہو اُس کے لئے فضیلت کی اور کون سی بات باقی رہ گئی؟ مظلومی وبے چارگی کی حالت میں صبر کرلینا بلا شبہ ایک بڑائی ہے، لیکن طاقت واختیار کی حالت میں بدلہ نہ لینا اور بخش دینا سب سے بڑی بڑائی ہے، اور سیرتِ یوسفی کی عظمت میں دونوں مقام جمع ہوگئے، جب بے چارگی تھی تو اُف تک نہ کی، جب طاقت ملی تو انتقام کا وہم وگمان بھی نہ گذرا، اور بلاشبہ یہ اُس زندگی کا سب سے بڑا اسوۂ حسنہ ہے۔(ترجمان القرآن:۳/۸۶۰-۸۶۱)
اگر انسانی زندگیوں کے مختلف نمونوں اور سرگرمیوں کا واقعاتی تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان یا تو حیوانیت کی دلدل میں پھنسا رہتا ہے یا شیطنت اُس پر حملہ آور رہتی ہے یا ربّانیت اُسے مقامِ ارفع پر فائز بنادیتی ہیں ، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہمہ وقت مادّی لذّات میں غرق اور منہمک رہتے ہیں ، ان کے تمام افکار وخیالات کا محور ان کی اپنی ذات ہوتی ہے، مادّیت سے آگے ان کی نگاہ کچھ اور نہیں دیکھ پاتی، دنیوی نقد منافع، حیوانی شہوات اور مادّی مقاصد کی تکمیل وتحصیل کے سوا ان کو کسی چیز سے کوئی مطلب نہیں ہوتا، بس اسی مادّیت کے پیچھے وہ اپنے تمام عقائد، اقدار حیات اور سب کچھ قربان کردیتے