آسمان کی بجلیوں سے نہیں لرزتا، درندوں کے مقابلے سے منہ نہیں موڑتا، تلواروں کے سائے میں کھیلنے لگتا ہے، لیکن نفس کی ایک چھوٹی سی ترغیب اور جذبات کی ایک ادنیٰ سی کشش کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتا، لیکن حضرت یوسف کی سیرت کی چٹان یہاں بھی متزلزل نہ ہوسکی، ان کی بے داغ فضیلت پر نفسِ انسانی کا سب سے بڑا فتنہ بھی دھبّہ نہ لگاسکا، تم چشمِ تصور سے کام لو اور دیکھو! ترغیبات کی قہر وسلطانی کا کیا حال تھا اور عیشِ نفس کی یہ دعوت کیسے شکیب آزما سامانوں اور صبر ربا حالتوں کے ساتھ پیش آئی تھی، عمر عین عروج شباب کی عمر اور معاملہ محبت کا نہیں محبوبیت کا، طلب کا نہیں مطلوبیت کا، پھر طلب بھی ہوئی تو کیسی طلب؟ دیوانگی کی طلب اور دل باختگی کا تعاقب! پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ موانع بالکل مرتفع ہوگئے، کوئی انسانی آنکھ دیکھنے والی نہیں ، کوئی پردۂ حجاب حائل نہیں ، کون ہے جو ایسی حالت میں بھی اپنے کو قابو میں رکھ سکتا ہے؟ عفت وپاکی کا کوئی سا پہاڑ ہے جو ان بجلیوں کی تاب لاسکتا ہے؟ لیکن ایک پہاڑ تھا جسے یہ بجلیاں بھی نہ ہلاسکیں ، یہ حضرت یوسف کی سیرت تھی جو کسی حال میں بھی متزلزل نہیں ہوسکتی تھی۔ (ترجمان القرآن:۳/۸۴۳-۸۴۵)
بالکل واضح بات ہے کہ حضرت یوسف کی عفت مآبی اور پاکیزگئ سیرت ان کی ربانیت کا ثمرہ تھی۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو حرام آمدنی کے مواقع ملتے ہیں مگر اس کی ربانیت اُسے حلال پر قناعت کا خوگر بنائے رکھتی ہے اور وہ حرام سے ہر طرح دور اور نفور رہتا ہے، کبھی انسان کو دشمن سے انتقام اور ہر کسر نکال لینے کا موقع بھی ملتا ہے مگر اس کی ربانیت اسے عفوودرگذر اور صبر پر مجبور کردیتی ہے، حضرت یوسف نے اپنے خون کے پیاسے بھائیوں کو