توبہ کی، پھر اس توبہ نے اپنا اثر دکھایا:
ثُمَّ اَجْتَبَاہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَیْہِ وَہَدَیٰ۔ (طٓہ/۱۲۲)
پھر اُن کے رب نے انہیں برگزیدہ بنایا، ان کی توبہ قبول کی اور انہیں ہدایت بخشی۔
دوسری طرف ابلیس تھا، اس کی نافرمانی کا منشأ اس کا تکبر، اور عناد وتمرد تھا، اُس نے کہا تھا
أَنَا خَیْرٌ مِنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍوَخَلَقْتَہُ مِنْ طِیْنٍ۔(صٓ/۷۶)
میں آدم سے بہتر ہوں ، آپ نے مجھے آگ سے اور اُسے مٹی سے پیدا کیا ہے (پھر میں اُسے کیسے سجدہ کروں )
اور اس نافرمانی کے بعد بھی بجائے احساسِ ندامت کے اُس کا ضلال واضلال پراصرار اور عناد بڑھتا گیا اور اس نے ہر انسان کو گمراہ کرنے کا عزم اللہ کے سامنے ظاہر کیا، چنانچہ اسے لعنت زدہ اور مردود ورجیم قرار دیا گیا۔
بارہا ایسا ہوتا ہے کہ حرام شہوتیں انسان پر حملہ آور ہوتی ہیں ، اور ایسا موقعہ بھی آتا ہے کہ خلوتیں انسان کو تقاضائے شہوت کی تکمیل کی راہ ہموار کردیتی ہیں مگر انسان کی ربّانیت اُسے بے لگام نہیں ہونے دیتی، اسے اپنے اللہ سے حیا آجاتی ہے، چنانچہ وہ اللہ کی پناہ مانگتا ہے اور گناہ وحرام کی آلودگی سے صاف بچ جاتا ہے۔
عزیز مصر کی بیوی زلیخا کی دعوتِ زنا کے جواب میں حضرت یوسف کا یہی طرزِ عمل رہا ، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کا سحر طراز قلم اسی کی منظر کشی یوں کرتا ہے:
انسان کے لئے سب سے بڑی آزمائش جذبات ہی کی آزمائش ہوتی ہے، وہ سمندر کی موجوں سے ہراساں نہیں ہوتا، پہاڑ کی چٹانوں سے نہیں گھبراتا،