ہوتا ہے، یعنی وہ ہمہ وقت اللہ کی طرف رجوع رہتا ہے، خصوصاً جب اس سے کوئی خطا یا قصور سرزد ہوجاتا ہے تو اس کا رجوع الی اللہ بہت بڑھ جاتا ہے، قرآن میں اللہ نے بتایا ہے کہ اللہ کی جنت کی وسعت آسمانوں اور زمین کی وسعت جیسی ہے، اور یہ جنت اہل تقویٰ کے لئے ہے، اہل تقویٰ کے اوصاف میں ایک وصف یہ بھی ہے :
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِہِمْ، وَمَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَلَمْ یُصِرُّوا عَلَیٰ مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ۔ (آل عمران/۱۳۵)
اگر کبھی کوئی فحش کام اُن سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کربیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں ، کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جس سے وہ اپنے گناہ معاف کراسکے؟ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کئے پراصرار نہیں کرتے۔
اس میں کوئی استعجاب نہیں کہ انسان معصیت کی دلدل میں پھنس جائے، شہوت اور خواہش نفس اس پر غالب آجائے، حضرت آدم علیہ السلام کو ابلیس ملعون نے بہکایا اور ممنوع کا ارتکاب حضرت آدم سے ہوگیا لیکن انہوں نے توبہ کی اور استغفار کی، یہاں تک کہ رحمت ومغفرتِ الٰہی کا دروازہ کھل گیا، لمحۂ فکریہ ہے کہ حضرت آدم سے قصور ہوا مگر وہ معاف کردیا گیا، اور ابلیس سے خدا کا حکم نہ ماننے کا قصور ہوا مگر وہ معاف نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم کے قصور کا منشأ انسانی ضعف ونسیان تھا، قرآن کے بقول :
نَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْماً۔ (طٓہ/۱۱۵)
حضرت آدم بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم نہ پایا۔
پھر اس قصور کے بعد ان کی طرف سے احساسِ ندامت پایا گیا، انہوں نے رورو کر