یَا صَاحِبَیِ السِّجْنِ: أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ أَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوْہَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ، إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّٰہِ، أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ، ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُوْنَ۔ (یوسف/۳۹-۴۰)
اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہترین ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کررہے ہو وہ اِس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء واجداد نے رکھ لئے ہیں ، اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی، فرمانروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لئے نہیں ہے، اس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی مت کرو، یہی درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔
ربانی ہونے کا چوتھا اثر اور ثمرہ یہ ہے کہ انسان انا پرستی، شہوت پرستی، خود غرضی، ذاتی مفادات اور مادّی مقاصد کے لئے دوڑ دھوپ اور کدوکاوش جیسے قبائح سے دامن کش ہوجاتا ہے، انسان جب ایمان کی روح اور لذت پالیتا ہے تو پھر ایک طرف اپنی نفسانی رغبات ومیلانات، اس کے تقاضوں ، اس کے نقد ملذات ومنافع کو دیکھتا ہے اور دوسری طرف دینی مطالبات، خداوندی احکامات، عالمِ آخرت کے ابدی منافع ولذائذ کو دیکھتا ہے، وہ دونوں کا موازنہ کرتا ہے، پھر اس کی فطری اور ایمانی عقل اسے دین کو نفس پر ترجیح دینے کا حکم دیتی ہے، چنانچہ وہ شہوت پرستی کے خول سے باہر آجاتا ہے، اور انا پرستی اور خود غرضی کو لات مار دیتا ہے، پھر اگر کبھی نفس کی شہوت زور آور اور سرکش ہوجاتی ہیں اور اس کا قدم بچلا دیتی ہیں تو فوراً اس کے اندر کا ایمانی ضمیر اُسے کچوکے لگاتا ہے اور اسے مخلصانہ توبہ وانابت کی راہ پر لگادیتا ہے۔
ربانی انسان معصوم فرشتہ نہیں ہوتا ہے، ربانی انسان قرآن کی زبان میں {اوّاب}