کوئی نہ اس لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے یا مرکز امید بنایا جائے، چنانچہ مسلمان ہر مصنوعی خدا اپنے دل سے نکال پھینکتا ہے، اور اپنے دل سے ہر مادّی ومعنوی بت نکال دیتا ہے، اور اس کا رخ خدائے واحد کی طرف یکسو ہوکر مڑجاتا ہے،پھر وہ اسی پر بھروسہ کرتا ہے، اسی کی طرف رجوع رہتا ہے، اسی کی رضا کا طلب گار اور اسی کی ناراضگی سے خائف رہتا ہے، اسی کی قوت سے مدد طلب کرتا ہے، اسی کو مضبوطی سے تھامتا ہے اور قرآن کے بقول :
وَمَنْ یَعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ إِلَیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ (آل عمران/۱۰۱)
جو اللہ کو مضبوطی سے تھام لے، اُسے راہِ راست کی طرف رہنمائی مل جاتی ہے اور وہ ہر طرح سے ربانی بن جاتا ہے۔
جب کہ مشرک وبت پرست انسان الجھنوں اوربے سکونی کی ناقابلِ بیان کیفیات کا شکار رہتا ہے، قرآن توحید وشرک کو ایک واضح اور عام فہم مثال سے یوں سمجھاتا ہے:
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً رَجُلاً فِیْہِ شُرَکَائُ مُتَشَاکِسُوْنَ وَرَجُلاً سَلَماً لِّرَجُلٍ، ہَل یَسْتَوِیَانٍ مَثَلاً۔ (الزمر/۲۹)
اللہ ایک مثال دیتا ہے کہ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں جو اُسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے، کیا اِن دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟
یعنی جس طرح ایک آقا کی غلامی باعثِ سکون اور بہت سے آقاؤں کی غلامی باعثِ بے سکونی ہے اسی طرح ایک خدا کی بندگی سراسر سکون اور متعدد خداؤں کی پرستش سراسر بے سکونی اور لعنت ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے قید خانے میں اپنے دو مشرک ساتھیوں سے کہا تھا :