پہلو کو سامنے رکھ کر روحانی غذا یعنی ایمان وعمل صالح پر مبذول ومرکوز کرے تبھی وہ ربانی بن سکتا ہے۔
امام ابن القیم لکھتے ہیں کہ :
دل کی پراگندگی توجہ الی اللہ سے دور ہوتی ہے، دل کی وحشت اللہ سے اُنس پیدا کرنے سے ختم ہوتی ہے، دل کا رنج وغم معرفتِ ربانی کے سرور سے کا فور ہوتا ہے، دل کا قلق واضطراب اللہ کے لئے یکسو ہونے سے زائل ہوتا ہے، دل میں امنڈتی ہوئی حسرتوں کی آگ اللہ کے حکم پر راضی اورا س کے فیصلہ پر مطمئن ہونے اور صبر کے التزام سے بجھتی ہے، دل کی بھوک صرف اللہ کی محبت، اس کی طرف رجوع وانابت، اس کے دائمی ذکر، اس کے لئے اخلاص ہی سے مٹتی ہے۔
(مدارج السالکین)
اسلام کا کام یہ ہے کہ وہ انسانی سلیم فطرت پر حالات، ماحول، رسوم، رواج، تقالید اور سماجی اثرات کی بنیاد پر چھاجانے والے شبہات کے زنگ اور شہوتوں کے غبار اور میل اور گندکو، اسی طرح عجب وکبر، اندھی تقلید، آباء پرستی جیسے رذائل کی غلاظت کو دور کرتا اور چھانٹتا ہے، اسی فطرت کے پیش نظر ہر نبی کی دعوت کا آغاز صدائے توحید سے ہوا ہے۔
ربانی ہونے کا تیسرا ثمرہ اور اثر یہ ہے کہ انسان اندرونی کشمکش اور الجھن سے محفوظ ہوجاتا ہے، اسلام اس کے خیالات وافکار کا رخ طلبِ رضائے الٰہی کی طرف، اور اس کی عملی قوتوں کا رخ عملِ صالح کی طرف موڑ دیتا ہے، اور اسے دو رنگی چھوڑ کر یک رنگ بنادیتا ہے، اور یہی یک رنگی اس کے لئے راحت وسکون کی پیغامبر ثابت ہوتی ہے۔
عقیدۂ توحید کے اعتراف واقرار سے ہر مسلمان کے دل کی گہرائی میں یہ یقین پیوست ہوجاتا ہے کہ اللہ صرف ایک ہے، خوف ورجا سب اسی سے وابستہ ہے، اس کے سوا