راحت، تشنگی کے لئے سیرابی، خوف سے امن، حیرت کے بعد ہدایت، اضطراب کے بعد سکون، قلق وبے چینی کے بعد اطمینان، وحشت کے بعد مانوسیت سب کا ذریعہ صرف اور صرف ایمانِ خالص ہے، اللہ انسان کی شہِ رگ سے زیادہ قریب ہے، اس پر بھی اگر انسان کو معرفتِ ربانی نہ ملے تو یہ اُس کی شقاوت اور حرماں نصیبی کی انتہا ہے، اللہ سے بے تعلقی، بے ربطی اورغفلت فی الواقع ہر بے سکونی اور بے کیفی اور محرومی کی اساس ہے، قرآن کے مطابق
جو اللہ کو بھول جاتے ہیں ، اللہ انہیں خود اپنی ذات بھلادیتا ہے۔ (الحشر/۱۹)
خدا فراموشی خود فراموشی پر منتج ہوتی ہے، آدمی جب اپنی عبدیت کو فراموش کردیتا ہے تو اس کی زندگی کی گاڑی غلط سمت میں محوِ سفر ہوجاتی ہے، مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں :
زندگی کی ساری قدر وقیمت اور اس کا سارا شرف وجمال اس حقیقت کے سمجھنے پر منحصر ہے کہ خالق نے اس کو محض چند روزہ عیشِ دنیا کے لئے نہیں بنایا ہے بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ انسان اس کو خدا کے احکام کے تحت گذار کر اپنے کو ابدی بادشاہی کا سزاوار بنائے، یہ معراج ظاہر ہے کہ اُسی کو حاصل ہوگی جو ہمیشہ اس وقت کو یاد رکھے کہ یہ زندگی اس کو اتفاقیہ نہیں مل گئی ہے بلکہ ایک بخشنے والے کی بخشی ہوئی ہے، اور اس نے ایک خاص مقصد سے یہ اس کو بخشی ہے، اگر اس مقصد کے تحت میں اس کو گذاروں گا تب تو یہ عظیم ابدی نعمت ہے، اور اگر اس مقصد کو بھلا بیٹھا تو یہ آپ سے آپ ایک ابدی لعنت بن جائے گی۔(تدبرقرآن:۸/۳۰۸)
انسان اللہ کی عجیب مخلوق ہے جسے روئے زمین کی ایک مٹھی مٹی اور روحِ الٰہی کی ایک پھونک سے تشکیل دیا گیاہے، اب جو یہ سمجھتا ہے کہ انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے، لیکن روحانی پہلو نظر انداز کردیتا ہے وہ انسانی حقیقت سے بے خبر ہے، ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے مادّی پہلو کو سامنے رکھ کر مادّی غذا یعنی کھانے پینے پر جو توجہ دیتا ہے، وہی توجہ اپنے روحانی