مقصدیت اس کے سامنے اجاگر ہوجاتی ہے، اور اسے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا خالق کون ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے؟ کیوں آیا ہے؟ کیا کرنا ہے؟ کہاں جانا ہے؟ اسی عقیدۂ توحید کی تاثیر تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے بت پرستوں سے فرمایا تھا:
فَإِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِیْ إِلاَّ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ، اَلَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَہُوَ یَہْدِیْنِ، وَالَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ، وَإِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ، وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِی ثُمَّ یُحْیِیْنِ، وَالَّذِیْ أَطْمَعُ أَنْ یَغْفِرَ لِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ۔ (الشعراء/۷۷-۸۲)
میرے تو یہ سب (بت) دشمن ہیں ، بجز ایک رب العالمین کے جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے، جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا، اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف کردے گا۔
ربانی بن جانے کا دوسرا فائدہ اور ثمرہ یہ ہے کہ انسان اس فطرتِ سلیمہ کی طرف راہ یارب ہوجاتا ہے جو اس سے ایمان، اخلاص اور حسنِ عمل کا مطالبہ کرتی ہے، فطرت کی طرف یہ راہ یابی معمولی اور ارزاں چیز نہیں ہے بلکہ بیحد قیمتی اورغیر معمولی دولت ہے، اور اسی سے انسان امن، سکون، بے خوفی اور اطمینان کی لذت پاتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ انسانی فطرت کے خلا کو سائنس، علم، کلچر، آرٹ، فلسفہ ومنطق سے پُر نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خلاف صرف تقاضائے فطرت پر عمل کرنے یعنی ایمانِ خالص سے پُرہوسکتا ہے، جب تک اللہ کی معرفت، اور اس پر ایمان انسان کے دل میں نہیں آتا تب تک اس کی فطرت ایک قسم کی کشمکش، بے چینی اور معنوی بھوک پیاس کی شکار رہتی ہے، فطرت کی تکان کے لئے