حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے۔
اسلام یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ انسان صرف خورد ونوش اور لہو ولعب کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہے، بلکہ قرآن کے بقول انسان اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے، کائنات کی ہر چیز انسان کے لئے ہے، اور انسان اللہ (کی معرفت وعبادت) کے لئے ہے، وہ پوری کائنات کا سردار اور اللہ کا بندہ وغلام ہے، اور یہی اس کے فخر کے لئے بس ہے کہ وہ ربانی (اللہ والا) بن جائے۔
ربانی بن جانے کا پہلا اثر اور ثمرہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو اپنا مقصدِ زندگی معلوم ہوجاتا ہے، وہ اس کائنات کی صناعی کی حکمت سے آشکارا ہوجاتا ہے، اسے اپنی زندگی کی اہمیت، قدر وقیمت اور معنویت، اور اس کی لذت ومنزلت کا ادراک ہوجاتا ہے، پھر وہ اپنے کو بے مقصد، بے قیمت اور عبث نہیں سمجھتا، اور اس کے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ وہ بے لگام اور کسی حدوقید کا پابند نہیں ہے، بلکہ وہ خود کو اخلاقی حدود وقیود کا پابند سمجھتا ہے، اس کا حال اس عربی شاعر کی طرح نہیں ہوتا جس نے کہا تھا ؎
لَبِسْتُ ثَوْبَ العَیْشِ لَمْ أَسْتَشِرْ
وَحِرْتُ فِیْہِ بَیْنَ شَتَّیٰ الْفِکَرْ
وَسَوْفَ أَنْضُوْ الثَّوْبَ عَنِّی، وَلَمْ
أَدْرِ: لِمَاذَا جِئْتُ؟ أَیْنَ المَفَرْ
کہ میں نے زندگی کا لباس پہن لیا، مگر میں مختلف افکار وخیالات میں سرگرداں ہوں ، عنقریب یہ لباسِ زندگی اتار دوں گا، مگر مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میں دنیا میں کیوں آیا ہوں اور مجھے کہاں جانا ہے؟
انسان جب عقیدۂ توحید کو دل کی گہرائی سے مان لیتا ہے تو پھر اپنی اور اس کائنات کی