کھلتی ہیں ۔
(۵) مدینہ منورہ میں ایک باندی بریرہ ایک غلام مغیث کی زوجیت میں تھیں ، ایک مدت کے بعد بریرہ آزاد ہوگئیں ، اب انہیں از روئے شرع سابق شوہر کے ساتھ رہنے یا علاحدہ ہوجانے کا اختیارمل گیا، انہوں نے علاحدگی کا فیصلہ کیا جو مغیث کے لئے بڑا الم ناک ثابت ہوا، وہ بریرہ سے علاحدہ نہ ہونے کی سفارش کرتے رہے مگر وہ نفی کرتی رہیں ، بالآخر معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچا، آپ نے بھی بریرہ سے کہا کہ علاحدگی کا فیصلہ نہ کرو، اس پربریرہ نے سوال کیا کہ کیا یہ آپ کا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں سفارش ہے، بریرہ نے جواب دیا کہ مجھے مغیث کے ساتھ نہیں رہنا ہے۔ (بخاری)
آزادئ فکر کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟
(۶) ماضئ قریب میں حضرت شیخ الہند (جو تحریک خلافت کے سرگرم حامی تھے) اورحضرت تھانویؒ (جو تحریک خلافت کے سخت ناقد تھے اورحضرت شیخ الہند کے شاگرد تھے) کا واقعہ بڑا بصیرت افروز ہے، حضرت شیخ الہندؒ نے کبھی بھی حضرت تھانوی کی تنقید کا برا نہیں مانا، حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں :
حضرت کے قلب پرمیرے اختلاف سے ذرہ برابر بھی گرانی نہ تھی، ایک مرتبہ تحریک خلافت کے زمانے میں حضرت کی بیٹھک میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے میرے متعلق برے بھلے الفاظ کہہ رہے تھے، کچھ الفاظ حضرت کے کانوں میں پڑگئے، باہر تشریف لائے، بہت خفا ہوئے اوریہ فرمایا کہ خبردار، جو آئندہ ایسے الفاظ کبھی استعمال کئے، اوریہ فرمایا کہ میرے پاس کیا وحی آئی ہے کہ جو کچھ میں کررہا ہوں وہ سب ٹھیک ہے، میری بھی ایک رائے ہے اور اس کی بھی ایک رائے ہے، ہمیں تو اس پر فخر ہے کہ جو شخص تمام ہندوستان سے بھی متأثر نہ ہوا اور