ایک شخص نے اٹھ کر کہا: بخدا! اگر ہم نے آپ کے اندر کجی دیکھی تو ہم اسے تلوار سے سیدھا کردیں گے، اتنی سخت بات امیر المؤمنین نے سن کر کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے امت میں ایسے جیالے پیدا فرمائے جو عمر کی کجی تلوار سے سیدھی کردیں گے، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تنقید واختلاف رائے کا استقبال کتنی خوش دلی سے کیا گیا، ناقد اگر بھلی بات کہہ رہا ہے تو اس کا نامناسب اور جارحانہ اسلوب اس قابل ہے کہ نظر انداز کردیا جائے، معاشرے کے بڑوں کو بطور خاص اس کا مصداق ہونا چاہئے ؎
تنقید سے خفا، نہ ستائش پسند ہوں
یہ حوصلے ہیں پست، میں ان سے بلند ہوں
(۴) حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے ایک بار حضرت عثمان کے سامنے ان پر اپنی برتری کی تین وجوہ کا ذکر کیا: اول: بیعت الرضوان میں حضرت ابوعبیدہ شریک تھے اورحضرت عثمان نہیں ، دوم: غزوۂ بدر میں ابوعبیدہ کی شرکت اور عثمان کی عدم شرکت۔ سوم: غزوۂ احد میں ابوعبیدہ کی ثابت قدمی اور عثمان کا عدم استقلال۔
یہ باتیں حضرت عثمان نے سکون سے سنیں اور فوراً اعتراف کیا کہ ابوعبیدہ! آپ سچ کہتے ہیں ، آپ بلاشبہ افضل ہیں ، پھر اپنا عذریوں بیان کیا کہ بیعت الرضوان میں عدم شرکت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مجھے مکہ بھیجنے کی بنا پر تھی، بدر میں حاضر نہ ہونا بحکم رسول مدینہ میرے قیام کی وجہ سے تھا اوراحد میں ثابت قدم نہ رہنے کی لغزش قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے بیان کے مطابق اللہ نے معاف فرمادی ہے۔ (ملاحظہ ہو: عبقریات العقاد/۶۵۰)
یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ سخت اور جارحانہ تنقید کو برداشت کرنا، اپنی کوتاہی تسلیم کرنا، مثبت اورسادہ اسلوب میں حقیقی صورتحال واضح کردینا۔ خواہ کتنا مشکل کام ہو… اللہ کے نیک بندوں کا شعار رہا ہے، اور انسانی ترقی کی راہیں انہیں اوصافِ عالیہ کو اپنا نے کے بعد